رسائی کے لنکس

پیرس اولمپکس: سرخ مسکاٹ اور مخروطی ٹوپی پر تنازع کیوں ؟


پیرس اولمپکس 2024 کا آفیشل مسکاٹ
پیرس اولمپکس 2024 کا آفیشل مسکاٹ

اگلے اولمپکس 2024 میں پیرس میں ہونے جا رہے ہیں، لیکن اولمپکس کی نشانیاں ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئی ہیں جن میں سب سے عام نشانی سرخ رنگ کا ایک مسکاٹ یعنی کارٹون نما کھلونا اور سرخ رنگ کی ہی ایک مخروطی ٹوپی ہے جسے جمہوریہ فرانس کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

اب آب سوچیں گے کہ بھلا کارٹون نما سرخ کھلونے اور ٹوپی کا پیرس اولمپکس سے کیا تعلق؟

آپ نے اکثر مغربی کمپنیوں اور بالخصوص ٹیموں کے لوگو میں کسی کارٹون نما چیز کا نشان ضرور دیکھا ہو گا۔خاص طور پر جب دو ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہورہاہو تو ان کا مسکاٹ وہاں اچھلتا کودتا اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتا دکھائی دیتا ہے۔

تاہم یہ صرف ان کا علامتی یا شناختی نشان ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے’ نیک شگون‘ کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔ پیرس اولمپکس کے منتظمین نے بھی اسی سوچ کے ساتھ کارٹون نما سرخ کھلونے اور سرخ مخروطی ٹوپی کا چناؤ کیا ہے۔

پیرس اولمپکس کے منتظمین نے کہا ہے کہ جب وہ ان مقابلوں کی نمائندگی کے لیے کسی مسکاٹ کے بارے میں سوچ رہے تھے تو وہ کسی جانور یا کسی دوسری مخلوق کا انتخاب نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ کوئی ایسی چیز سامنے لانا چاہتے تھے جو بہتر طور پر پیرس اولمپکس میں فرانس کی نمائندگی کر سکے۔

پیرس اولمپک 2024 کے لیے جاری کیاجانے والا میسکاٹ۔ 14 نومبر 2022
پیرس اولمپک 2024 کے لیے جاری کیاجانے والا میسکاٹ۔ 14 نومبر 2022

پیرس اولمپکس مسکاٹ کو سرخ رنگ کے کپٹرے سے بنایا گیا ہےاور اس کے اندر روئی بھری گئی ہے۔ جب کہ سرخ مخروطی ٹوپی کو آزادی کی علامت کے طورپر اپنایا گیا ہے۔

جیسے جیسے اولمپکس قریب آ رہے ہیں، سرخ میسکاٹ اور مخروطی ٹوپی کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔

لیکن اب ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا ہے جس پر فرانس بھر میں خوب لے دے ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ اس بحث کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت کو بھی میدان میں اترنا پڑا ہے۔

پیرس اولمپکس 2024 کمیٹی کے ہیڈ کوارٹرز پر نصب مسکاٹ۔ 14 نومبر 2022
پیرس اولمپکس 2024 کمیٹی کے ہیڈ کوارٹرز پر نصب مسکاٹ۔ 14 نومبر 2022

مسئلہ مسکاٹ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مانگ کا ہے۔ اس وقت فرانس میں صرف دو کمپنیاں ’گپسی ٹوائز‘ اور ڈو ڈو ایٹ کمپنی‘ مسکاٹ تیار کر رہی ہیں۔ مگر وہ بھی جزوی طور پر، کیونکہ اس میں استعمال ہونے والا سرخ کپٹرا تو فرانس میں بنتا ہے جب کہ مسکاٹ بنانے کا دوسرا سامان چین سے آتا ہے۔ یہ دونوں کمپنیاں مجموعی طور پر فرانس کی طلب کا محض 8 فی صد پورا کرتی ہیں۔ جب کہ باقی 92 فی صد مسکاٹ اور ٹوپیاں چین سے آ رہی ہیں۔

ان دنوں فرانس میں یہی بحث چھڑی ہوئی ہے کہ کیا ہم ’اپنی نمائندگی کرنے والی اور نیک شکون کا اظہار کرنے والی چیز‘ بھی خود نہیں بنا سکتے؟ کیا ہم اپنی سرخ مخرطی ٹوپی کے لیے بھی چین کے محتاج ہیں۔

چین اس وقت امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ چین میں بنائی جانے والی اشیا دنیا کے ہر براعظم، ہر ملک کے ہر شہر اور قصبے میں کثرت سے موجود ہیں۔ کاروباری ذہن رکھنے والے چینی ہر علاقے کے لوگوں کی طلب، مالی حیثیت اور نفسیات کو خوب سمجھتے ہیں اور وہاں کی مارکیٹوں میں اپنی مصنوعات اس طرح پھیلا دیتے ہیں کہ کوئی دوسرا ان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا۔

ایک فرانسیسی خاتون ’فریجیئن کیپ‘ پہنے ہوئے ہے۔ فائل فوٹو
ایک فرانسیسی خاتون ’فریجیئن کیپ‘ پہنے ہوئے ہے۔ فائل فوٹو

چند برسوں سے ترقی یافتہ ملک چین کے پھیلتے ہوئے تجارتی حجم سے پریشان ہیں کیونکہ ان کے اپنے ملک کی منڈیاں بھی ان کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں۔ وہ اپنی معیشت اور روزگار کے تحفظ کے لیے چینی مصنوعات کی یلغار کو روکنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

اسی طرح فرانس میں بھی سرخ مسکاٹ خریدنے اور سرخ مخروطی ٹوپیاں پہننے والے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر انہیں ہم اپنے ملک میں کیوں نہیں بنا سکتے؟

اب اس بحث میں فرانس کی حکومت بھی شامل ہو گئی ہے۔ حال ہی میں حکومت کے ایک ترجمان اولیور ویرین نے ٹیلی وژن کے فرانس ٹو چینل پر کہا ہے کہ اصل میں یہ ایک پیداواری مسئلہ ہے۔ ہم بھی شدت سے چاہتے ہیں کہ یہ چیزیں ہمارے ملک میں تیار ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنی فیکٹریاں اور وسائل موجود نہیں ہیں کہ چند مہینوں میں ہم 20 لاکھ سے زیادہ مسکاٹ بنا سکیں۔ لیکن ہم مستقبل میں اپنے کاروبار ملک میں واپس لا نے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

فرانس میں مختلف تقریبات اور مظاہروں تک میں ’فریجیئن کیپ‘ کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ فائل فوٹو
فرانس میں مختلف تقریبات اور مظاہروں تک میں ’فریجیئن کیپ‘ کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ فائل فوٹو

ان اولمپکس کی نمائندگی کے لیے متعارف کرائی جانے والی مخروطی شکل کی سرخ ٹوپی کو ’فریجیئن کیپ‘ کہتے ہیں۔ مخروطی شکل کی یہ ٹوپی ایک طرف جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ اس سے ملتی جلتی ٹوپیاں فارس، بلقان ، تھریس اور ڈاسیا وغیرہ میں پہنی جاتی ہیں۔ قدیم تاریخ میں ان کا تعلق یونانی دور سے جا ملتا ہے جہاں انہیں آزاد ہونے والے غلام پہنتے تھے۔ فرانس میں یہ ٹوپی آزادی کی علامت سمجھی جاتی ہے اور اسی لیے اسے اولمپکس کا حصہ بنایا گیا ہے۔

پیرس اولمپکس جولائی تا اگست 2024 میں اور پیرا اولمپکس اگست تا ستمبر میں ہوں گے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG