امریکہ میں ایف بی آئی، نیو یارک میں ایک غیر قانونی پولیس سٹیشن کی موجودگی کی چھان بین کر رہا ہے جو چین کے زیرِ انتظام اس نیٹ ورک کا حصہ ہے جس کے تحت دنیا بھر میں اس کے یہ اسٹیشن چل رہے ہیں۔ اس بات کا انکشاف امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے ڈائریکٹر کرسٹو فر رے نے جمعرات کے روز کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکہ میں اس نوعیت کے قانون نافذ کرنے کی بیجنگ کی یہ کارروائی روک دی جائے گی۔
سینیٹ میں ہوم لینڈ سیکیورٹی کی ایک سماعت کے دوران رے نے کہا کہ "ایف بی آئی ان ا سٹیشنز کی موجودگی سے آگاہ ہے۔"
انہوں نے کہا،" چھان بین کی اس مخصوص کارروائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں حتیاط سے کام لوں گا مگر میرے نزدیک یہ سوچنا بھی سخت برہمی کا باعث ہے کہ چینی پولیس، مثال کے طور پر، کسی باقاعدہ رابطے کے بغیر، نیویارک میں اپنی "شاپ" کھولنے کی کوشش کرے۔"
رے نے کہا،" چین کی یہ کارروائی،اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی ہے اور قانون نافذ کرنے کے لیے باہم تعاون کے روایتی طریقۂ کار کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔"
ستمبر میں سپین میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم، "سیف گارڈ ڈیفینڈرز" نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ چین نے دنیا بھر میں " کم از کم 54 پولیس اسٹیشن قائم کر رکھے ہیں " جن میں سے ایک نیویارک میں اور تین ٹورانٹو میں ہیں۔ گروپ کا کہنا تھا کہ اس کی یہ فہرست باضابطہ بیانات کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے تاہم اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان پولیس سٹیشنزکو بیرونِ ملک چین سے متعلق غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی ذمے داری سونپی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ چین کی ملک سے باہر جبر کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے دہرائے جانے کو بھی ظاہر کرتے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی سرحدوں سے باہر بھی سیاسی نظریات کی نگرانی اور ان پر روک لگانے کی کوشش کرتا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے اس بارے میں تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
چینی عہدیدار بارہا کہہ چکے ہیں کہ یہ پولیس سروس سٹیشنز چینی شہریوں کو ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید اور معمول کے ان دیگر امور میں مدد دیتے ہیں جو عام طور پر ایک سفارت خانے یا قونصل خانے کے ذریعے نمٹائے جاتے ہیں۔
گزشتہ ماہ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماؤننگ کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ انہوں نے کہا،" چین میں سیکیورٹی کے حکام بین الاقوامی قانون کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اور دیگر ملکوں کے قانونی اقتدار اعلیٰ کا مکمل احترام کرتے ہیں۔"
چھان بین صرف امریکہ ہی میں نہیں ہو رہی
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق چین کے بیشتر بیرونِ ملک پولیس ا سٹیشن یورپ میں پائے گئے ہیں اور ایف بی آئی واحد ادارہ نہیں ہے جو ان کے بارے میں چھان بین کر رہا ہے۔
"سیف گارڈ ڈیفینڈرز" نامی گروپ کی رپورٹ سامنے آنے کے دو ماہ کے بعد کم از کم 14 ملکوں کی حکومتوں نے جن میں برطانیہ، کینیڈا اور جرمنی بھی شامل ہیں، ان پولیس اسسٹیشنوں کے بارے میں چھان بین شروع کر دی ہے۔
رے نے کہا کہ ایف بی آئی قانون نافذ کرنے والے اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ چینی پولیس اسٹیشنز کے بارے میں بات چیت کر رہا ہے کیونکہ،" امریکہ واحد ملک نہیں ہے جہاں ایسا ہوا ہے۔"
اگرچہ ایف بی آئی نے اس سے پہلے چینی پولیس اسٹیشن کی نیویارک میں موجودگی کی تصدیق نہیں کی تھی تاہم بیورو کو کافی عرصے سے علم تھا کہ چین کے قانون نافذ کرنے والے، امریکی سرزمین پر چینی حکومت کے مخالفین اور دیگر لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹرکرسٹوفر رے نے کہا،" ہم نے چینی حکومت، چینی کمیونسٹ پارٹی کے طرز عمل کا یہاں امریکہ میں ایک واضح انداز دیکھا ہے کہ وہ کیسے اپنا جبر یہاں عین امریکہ میں منتقل کرتے ہیں۔
رے نے کہا،" ہم کئی ایسے چینیوں پر فردِ جرم عائد کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں جو امریکہ میں قانون نافذ کرنے کی کارروائیوں میں مصروف پائے گئے اور جو لوگوں کو ہراساں کرنے، ان کا پیچھا کرنے، نگرانی کرنے اور ان لوگوں کو بلیک میل کرنے کی کارروائیوں میں ملوث تھے جنہیں وہ پسند نہیں کرتے یا جو چینی صدر شی جن پنگ کی حکومت سے اختلاف رکھتے تھے۔"
جون میں سویلین سیکیورٹی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے امریکہ کی معاون وزیرِ خارجہ، عذرا ضیاء نے کانگریس کے ایک پینل کو بتایا کہ ملک سے باہر چین کے جبر اور لوگوں کو دبانے کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے جواب میں بائیڈن انتظامیہ نے حکومتی سطح کا ایک جامع طریقہ کار اپنایا ہےجس میں ویزہ کی پابندیاں، برآمدات پر کنٹرول اور جرم کے مرتکب افراد کی چھان بین اور ان کے خلاف قانونی کارروائی شامل ہے۔
جولائی میں ایک گرینڈ جیوری نے، امریکہ میں رہائش پذیر چین کےمخالف شہریوں کی آواز کو خاموش کروانے کی ایک سکیم میں شامل پانچ افراد اور فیڈرل لاء انفورسمنٹ کے ایک افسر اور ایک نجی انویسٹی گیٹر پر فردِ جرم عائد کی تھی۔
اکتوبر میں امریکی محکمہ انصاف نے سات چینی شہریوں پر نیویارک میں مقیم چینی شہری کو زبردستی چین واپس بھیجنے کی ا سکیم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
ان لوگوں پر یہ فردِ جرم عائد کیے جانے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ نے مارچ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے کئی عہدیداروں پر مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف جبرو ستم کے الزام کے تحت ویزہ کی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
( اس رپورٹ میں کچھ مواد اے پی سے لیا گیا)