کراچی کے فریئر ہال میں دو روزہ 'چوتھا ادب فیسٹیول' میں پاکستانی ڈراموں کے ارتقا اور معیار جیسے موضوعات زیرِ بحث آئے، جس میں کئی مشہور شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
رواں برس ادب فیسٹیول فروری اور مارچ کے بجائے 26 اور 27 نومبر کو منعقد ہوا جب کہ اس کے تمام سیشنز کراچی کے فریئر ہال کے احاطے میں منعقد ہوئے۔
فیسٹیول میں ملک بھر سے کئی مشہور ادبی اور سیاسی شخصیات نے شرکت کی جس میں شیری رحمان، اعتزاز احسن، کشور ناہید، زہرہ نگاہ ، افتخار عارف اور شرمین عبید چنائے شامل تھیں۔
چوتھے ادب فیسٹیول کا مرکزی عنوان 'موسمیاتی تبدیلی' تھا۔ ایونٹ کے پہلے روز ڈاکٹر فوزیہ سعید کی کتاب 'ٹیپسٹری' کی تقریبِ رونمائی ہوئی جب کہ دوسرے روز ٹی وی ڈرامے کے ارتقا پر گفتگو کی گئی۔
مصنفہ ڈاکٹر فوزیہ سعید نے اپنی چھٹی کتاب 'ٹیپسٹری' میں ان پاکستانی خواتین کے بارے لکھا ہے جنہوں نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔
ڈاکٹر فوزیہ سعید کا کہنا تھا کہ اس کتاب کی تحقیق کےدوران انہیں اندازہ ہوا کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر کئی باتیں بتائی ہی نہیں جاتیں۔
ان کے بقول انہوں نے اس کتاب میں امریکی لائبریریوں کی مدد سے کچھ ایسے حقائق بھی شامل کیے ہیں جنہیں حکومتِ پاکستان کبھی سامنے نہیں لائی۔
'ریٹنگ کی وجہ سے وہ سب دکھایا جارہا ہے جو گھروں میں نہیں ہوتا'
اتوار کو ادب فیسٹیول کے دوسرے روز ٹی وی ڈراموں سے متعلق سیشن کا انعقاد ہوا جس کا عنوان 'تنوع یا مماثلت؟' تھا۔ اس سیشن میں پاکستان میں ٹی وی ڈرامہ کے ارتقا پر بات کرنے کے لیے ہم نیٹ ورک کی صدر اور ہدایت کارہ سلطانہ صدیقی، اداکار و ہدایت کار سیف حسن، مصنفہ بی گل، سمیرا فضل ا ور ڈرامہ نگار نور الہدی شاہ نے میزبانی کی۔
سلطانہ صدیقی کے بقول ریٹنگ کے پیچھے نہ بھاگنے اور عورت کوپٹتا ہوانہ دکھانے کی وجہ سے انہیں نقصان تو ہوتاہے لیکن اس کی وجہ سے شائقین ان کے ڈراموں کو پسند کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ ٹی وی چینلز پر دکھایا جاتا ہے اس میں سے زیادہ تر باتیں تو گھروں میں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جب کبھی حقیقت سے قریب تر موضوع پر بات کی جاتی ہے تو پیمرا انہیں نوٹس بھیج کر طلب کرلیتا ہے۔
ڈرامہ 'عہدِوفا' کی ہدایات دینے والے سیفِ حسن نے کہا کہ ایک ہدایت کار کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اداکار سے اداکاری کرائے نہ کہ صرف ایک کیمرامین بن کر فریم کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرے۔
'ڈر سی جاتی ہے صلہ' اور 'رقیب سے' تحریر کرنے والی بی گل کے مطابق ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جب بھی کوئی ڈرامہ لکھیں تو اس کے ذریعے کوئی نہ کوئی پیغام پہنچائیں، تاکہ تفریح کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہوسکے۔
انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ 'ڈر سی جاتی ہے صلہ' کی مقبولیت کے بعد ایک صاحب نے ان سے گلہ کیا کہ وہ بھی ایک ماموں ہیں لیکن جوئی ماما کے کردار کے بعد سے ان کی اپنی بھانجیاں ان سے کترانے لگی ہیں۔
ایسے میں سمیرا فضل نے ریٹنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب ان سے چینل مالکان کچھ لکھواتے ہیں تو وہ پوائنٹس بھی دیتے ہیں جو ان کے خیال میں ریٹنگ بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان پوائنٹس کے گرد ہی ڈرامہ لکھیں تاکہ وہ پسند بھی کیا جائے اور انہیں اپنی بات بھی کہنے کا موقع مل سکے۔
سیشن میں لکھاری نور الہدیٰ شاہ نے کہا کہ ڈرامہ 'جنگل' کے مقبول ہونے کے بعد ان کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے ہوئی جس کے بھائی نے ڈرامہ دیکھ کر نہ صرف اسے گاؤں سے بھگایا بلکہ اس کی آزاد ی سے زندگی جینے میں مدد بھی کی۔
انہوں نے گفتگو کے اختتام میں یہ بھی بتایا کہ اس لڑکی نے اپنی بیٹی کا نام نور الہدیٰ شاہ ہی رکھا، جس پر انہیں فخر ہے۔