دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر وسوخ سے متعلق سامنے آنے والی ایک مطالعاتی تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں ملک کے مختلف شعبوں میں چین کا اثرو رسوخ سب سے زیادہ ہے۔
تائیوان میں قائم تحقیقاتی ادارے ڈبل تھنک لیبز کی طرف سے حال ہی میں جاری ہوئے 'چائنہ انڈیکس 'رپورٹ میں دنیا کے 82 ممالک میں چین کے اثرو رسوخ کا جائزہ لیا گیا ہے اس انڈیکس کے مطابق دنیا کے 82 ممالک کے نو شعبوں میں چین کے اثرو رسوخ کےتحت درجہ بندی کی گئی ہے جن میں تعلیم، معیشت ، معاشرتی امور، دفاع ، ٹیکنالوجی، تعلیم، سیاست اور خارجہ پالیسی کے معاملات شامل ہیں۔
اس انڈیکس کے مطابق پاکستان پہلے نمبر جب کہ کمبوڈیا دوسرے اور سنگاپور تیسرے نمبر پر ہیں۔
چائنہ انڈیکس کے مطابق پاکستان میں ٹیکنالوجی، خارجہ پالیسی اور دفاع کے شعبوں میں چین کا اثرو رسوخ سب سے زیادہ ہے۔
اگرچہ پاکستان کا موقف ہے کہ اسلام آباد بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھنے کا خواہاں ہے لیکن حالیہ سالوں میں چین کا پاکستان میں اثر و ر سوخ میں نہ صرف تیزی سے بڑھا ہے بلکہ مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں ایک نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان دنیا کا ایسا ملک ہے جس کے چین کے ساتھ تعلقات تاریخی طور پر نہایت ہی قریبی اور گہر ےہیں۔
پاکستان اور چین ایک دوسرے کو ہر موسم کا دوست قرار دیتے ہوئے اپنے تعلقات کو بے مثال قرار دیتے ہیں۔ پاکستان اور چین کے تعلقات خطے میں بھارت کے بڑھتے ہوئےا ثر و رسوخ کی وجہ سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
دوسری جانب چین کے پاکستان کے دفاعی شعبوں میں گہرے روابط قائم ہیں۔ ا س کے علاوہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت توانائی اور شاہراؤں کی تعمیر بھی چین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کی گودار پورٹ کی تعمیر بھی چین کا اہم کردار تھا اور اب یہ بندر گاہ اقتصادی راہداری منصوبے کا اہم جزو ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات اب صرف اقتصادی اور دفاعی پہلو تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ دونوں ممالک عالمی فورم پر بھی ایک دوسرے کے مفادات کی حمایت کرتے ہیں۔
چین پر پاکستان کا انحصار کیوں بڑھ رہا ہے
حالیہ سالوں میں پاکستان او رچین ایک دوسرے کے ایک ایسے وقت میں زیادہ قریب آرہے ہیں جب خطے میں امریکہ کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں مسلسل اضافہ ہونا شروع ہوا ہے اور بھارت خطے میں امریکہ کا ایک نیا اسٹریٹجک اتحادی بن کر ابھرا ہے۔
اقتصادی امور کے تجزیہ کار ہارون شریف کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کے امریکہ اورمغربی ممالک کے ساتھ تعلقات نہایت اہم رہے اور جب بھی پاکستان کو کسی مالی معاونت کے بیل آوٹ پیکج کی ضرورت پڑی تو پاکستان پیرس کلب سے رجوع کرتا تھا لیکن اب جب پاکستان کو نہایت سنگین معاشی مشکلات درپیش پیں تو پاکستان چین اور سعودی عرب سے رجوع کررہا ہے۔
اس لیے ان کےبقول جب بھی کوئی ملک کسی دوسرے ملک کو اقتصادی اور مالیاتی مدد فراہم کرتا ہے تو اس کے اثرو رسوخ کا بڑھنا ایک قدرتی امر ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد امریکہ کی توجہ پاکستان کی طرف کم ہورہی ہے اور اس وجہ سے پاکستان کا رجحان چین اور خطے کے دیگر ممالک کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ہارون شریف کہتے ہیں کہ مغربی ممالک کے بھی پاکستان کے ساتھ دوبارہ تعلقات کو ہر شعبے میں بہتر کرنے کی طرف توجہ دینی ہو گی بصورت دیگر پاکستان کا انحصار چین پر مزید بڑھتا جائے گا۔
یاد رہے کہ ماضی میں سرد جنگ کے دور میں پاکستان کے امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ نہایت قریبی اسٹرٹیجک تعلقات رہے ہیں لیکن اب ان تعلقات کی نوعیت تبدیل ہورہی ہے۔ جب کہ امریکہ خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے لیے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری کو فروغ دے رہا ہے۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کا رجحان نہ صرف چین کی طرف بڑھ رہا ہےبلکہ وہ خطے کے دوسرے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کررہا ہے۔
حال ہی میں صدر شی جن پنگ کا سعودی عرب کا دورہ اس بات کی مظہر ہے کہ چین کا اثر و رسوخ اس خطے میں بڑھ رہا ہے جو تاریخی طور پر امریکہ کے اسٹرٹیجک اثر رسوخ میں تھا۔
مغربی ممالک پاکستان کو نظر اندازنہ کریں
لیکن ہارون شریف کہتے ہیں کہ چین کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باوجود مغربی ممالک کو پاکستان کو نظر انداز کرنے کی بجائے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے ہوں گےتاکہ پاکستان کا انحصار مکمل طور پر چین پر نہ ہو۔
دوسری جانب بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہمابقائی کہتی ہیں کہ چین کا اثر و رسوخ بھی ہر طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ اب چین اقتصادی کے ساتھ ساتھ سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ کررہا ہے۔
انہوں نے کہا جہاں تک چین اور پاکستان کے تعلقات کی بات ہے پاکستان ہمیشہ اپنے چین کے ساتھ تعلقات پر کھلے عام بات کرتا ہے۔ چین پاکستان کے مختلف شعبوں میں تعاون کرتا آرہا ہے جن میں دفاعی اور اقتصادی تعلقات بھی شامل ہیں۔
لیکن ہما بقائی کہتی ہیں کہ چین کے ساتھ گہری قربت کے باوجود پاکستان بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن چاہتا ہے۔ اگرچہ پاکستان اور امریکہ کےتعلقات کو ایک نئی جہت پر استوار کرنے کی کوشش ہورہی ہے لیکن ہما بقائی کہتی ہیں کہ اس کےباوجود پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کرنے پر تیار نہیں ہوگا۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ چین اور پاکستان کے درمیان بعض امور میں مسائل بھی ہیں۔ جولائی 2021 میں خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان میں داسو ڈیم منصوبے پر کام کرنے چینی کارکنوں پر مہلک حملے کی وجہ سے تعلقات پر منفی اثر پڑا ۔ اسی طرح سی پیک کےتحت بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبوں کے بعد دوسرے مرحلے کے منصوبے اس رفتار سے آگے نہیں بڑ ھ رہے جس کی توقع کی جارہی تھی۔
لیکن پاکستان نے اب چینی قیادت کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے ' سی پیک 'کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی کارکنوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے ہر ممکن اقدام کیے جارہے ہیں۔
سی پیک چین کے چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک اہم جزو ہے جسے چین دنیا کے کئی ممالک تک وسعت دینے کے لیے کوشاں ہے اور اس منصوبے کی وجہ سے چین دیگر ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ اگرچہ چین کا موقف ہے کہ یہ منصوبے صرف اقتصادی نوعیت کے ہیں لیکن امریکہ اور مغربی ممالک ان منصوبوں کو چین کی سیاسی اور اسٹرٹیجک اثرورسوخ کو بڑھانے کے ذریعے سمجھتے ہیں۔
ہارون شریف کہتے ہیں کہ مغربی ممالک میں ایک تاثر ہے کہ چین نہ صرف اپنے اقتصادی مفادات کے حصول کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو استعمال کر رہا ہے بلکہ چین اب مغربی جمہوریت کے ماڈل کو چیلنج کررہا ہے اور چین کی قیادت اپنے سیاسی نظام کو مغربی جمہوریت کے مقابلے میں ایک بہتر ماڈل قرار دے رہی ہے ۔
ہارون شریف کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کا انحصار چین پر مزید بڑھے گا تو اس بات کا امکان ہے کہ چین کا پاکستان کے سیاسی اور جمہوری اقدار پر بھی اثر پڑ سکتا ہے جو ان کےبقول ایک پریشانی کی بات ہو سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان اور چین انسانی حقوق کے معاملے میں ایک دوسرے کی حمایت کرتے آرہے ہیں۔ خاص طور چین کے سنکیانگ کے صوبے میں روا رکھی جانے والی انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر پاکستان نے کبھی کھل کر بات نہیں کی ہے۔
تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ چین نے کبھی بھی پاکستان کی اندرونی اور سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کی ہے اور نہ ہی کبھی چین نے پاکستان سے توقع رکھی ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر بیجنگ کے ساتھ تعلقات استوار رکھے۔