چین کے اسپتالوں میں آج بخار کلینکس کے باہر کووڈ وائرس کی جانچ کرانے والے افراد قطاروں میں کھڑے رہے۔ حکام کی جانب سے اس بیماری کے خلاف سخت اقدامات کو ختم کرنے کے بعد وائرس کے تیز پھیلاؤ کی ایک نئی علامت سامنے آ رہی ہے ۔
چین وائرس کے تین سال بعد ایک ایسی دنیا کی جانب آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے جس نے بڑی حد تک کووڈ وائرس کے ساتھ رہنا شروع کر دیا ہے۔ چین نے وائرس کی روک تھام کے ردعمل میں بڑے احتجاج کے بعد اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ہےاور متعدد سرگرمیوں کے لیے درکار ٹیسٹنگ ختم کی ہے اور قرنطینہ کی مدت کو محدود کیا ہے۔
اس کے علاوہ چینی حکام ملک کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی کے سفر پر نظر رکھنے والے ایپ کو بھی غیر فعال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین میں وائرس کو بہتر طور پر کنٹرول کے باوجود بھی دنیا کی یہ دوسری سب سے بڑی معیشت نئی صورت حال کو قبول کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار نہیں ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انفیکشن کی کوئی نئی لہر چین کے صحت کے نظام پر دباؤ ڈال سکتی ہے اور کاروبار کو روک سکتی ہے۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حالیہ ہفتوں میں نومبر سے مقامی کیسز کی تعداد میں کی آ رہی ہے۔
امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل انکارپوریشن چین میں قائم اپنے کچھ پیدواری شعبوں کو بھارت اور ویت نام منتقل کرنے کا منصوبہ آگے بڑھا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی سخت کرونا پالیسی اور کاروبار ی ماحول کے باعث عالمی سپلائی لائن متاثر ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایپل نے اپنی پروڈکشن کے شعبوں کو وہاں سے منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
وائس آف امریکہ کے جوائس ہوانگ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایپل کا یہ اقدام دنیا کے مختلف ملکوں کی جانب سے ’ڈی سینی فکیشن‘ یعنی چین پر انحصار کم کرنے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہو گی۔