چین کی کچھ یونیورسٹیوں نے کہا ہے کہ وہ جنوری میں نئے قمری سال کے موقع پر سفر کے رش کی وجہ سے کووڈ وائرس پھیلنے کے خدشات کے پیش نظر اور طالب علموں کو وائرس کا سامنا کرنے سے بچانے کے لیے انہیں اپنا سمسٹر گھر پر ہی رہ کر مکمل کرنے کی اجازت دے دیں گی۔
یہ واضح نہیں کہ یہ فیصلہ کتنی یونیورسٹیوں نے کیا ہے لیکن شنگھائی اور قریبی شہروں کی یونیورسٹیوں نے کہا ہے کہ طلباء کو یا تو جلد گھر سے واپس آنے یا کیمپس میں ہی میں رہنے اور ہر 48 گھنٹوں کے بعد ٹیسٹ کروانے کا اختیار دیا جائے گا۔
چین کا نیا قمری سال 22 جنوری کو شروع ہو رہا ہے اور روایتی طور پر یہ چین کا سب سے مصروف سفری دور ہوتا ہے۔
یونیورسٹییوں میں پچھلے تین برسوں کے دوران اکثر لاک ڈاؤن رہا ہے جس کے نتیجے میں بعض موقعوں پر کیمپس یا پھر کمروں تک محدود رہنے کے معاملے پر طلبا اور انتظامیہ کے درمیان جھڑپیں بھی رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔
منگل کے روز یہ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب چین نے اپنی سخت زیروکووڈ پالیسی میں نرمی شروع کردی ہے ۔
پالیسی میں نرمی کے بعد ان افراد کو جن میں وائرس جیسی ہلکی علامات ہوں گی، انہیں قرنطینہ کے لیے قائم کیے جانے والے مراکز میں بھیجنے کی بجائے اپنے گھر پر ہی رہنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
کووڈ پالیسی میں نرمی کی وجہ پابندیوں کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے بھی ہیں۔ کیونکہ چینی عوام طویل پابندیوں سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح دنیا بھر میں شہر کھولے جا رہے ہیں اور پابندیوں میں نرمی برتی جا رہی ہے اسی طرح کا عمل چین میں بھی کیا جائے۔
منگل سے، چین نے اس ایپ کو غیر فعال کر دیا ہے جو سفر پر جانے والوں کا کھوج لگاتا تھا اور ان افراد کی شناخت کرتا تھا جو کرونا میں مبتلا ہوتے تھے۔ تاہم ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ ملک سے باہر جانے والے چینیوں پر پابندیاں کب نرم کی جائیں گی۔
کرونا پالیسی میں تبدیلی 25 نومبر کو شمال مغربی شہر ارومکی کی ایک ریائشی عمارت میں آگ لگنے سے 10 افراد کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد آئی ہے۔ کرونا پابندیوں کی وجہ سے امدادی عملہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے عمارت میں داخل نہیں ہو سکا تھا۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔