بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کے اس حکم نامے کے خلاف مزاحمت تیز کردی ہے جس میں علاقے کے 20 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز سے سرکاری اراضی پر مبینہ ناجائز قبضوں اور تجاوزات کو جنوری کے آخر تک ختم کرانے کا کہا گیا ہے۔
محکمہ مال کے کمشنر سیکریٹری وجے کمار بدھوری کی طرف سے جاری کیے گئے حکم نامے کے خلاف مختلف مقامات پر تین روز سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان مظاہروں کا اہتمام کانگریس، نیشنل کانفرنس، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی، ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی، جموں و کشمیر اپنی پارٹی اور دیگر جماعتیں کر رہی ہیں۔
مظاہروں میں اس حکم نامے سے متاثرہ افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی ہے۔ اس حوالے سےایک شخص تجمل حسین(فرضی نام) نے سرکاری حکم نامے کو ظالمانہ قرار دیا ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ محکمہ مال کے افسران اور عملہ شہریوں کو خوف زدہ اور ہراساں کر رہا ہے۔
ادھر کانگریس سے وابستہ مقامی ضلع ترقیاتی کونسل کے رکن شاہنواز چوہدری کا کہنا تھا کہ ''حکومت جموں و کشمیر کے پسماندہ اور کمزورطبقوں سے وابستہ افراد کے خلاف کام کر رہی ہے جو ناقابل قبول ہے۔ لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی غریب اور بے زمین لوگوں کو بے دخل کرکے لینڈ مافیا تجارت میں ملوث افراد کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔''
'ہم کیا کریں، کہاں جائیں'
تجمل حسین نے بتایا کہ وہ سرحدی قصبے پونچھ کے مضافات میں واقع جس آبائی مکان میں رہ رہے ہیں اس سے ملحقہ کھیت سے وہ روزی کما رہے ہیں۔تاہم محکمہ مال نے اسےسرکاری اراضی قرار دے کر خالی کرنے کا حکم دیا ہے جو پورے کنبے پر بجلی گرانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ہم کیا کریں، کہاں جائیں؟
مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مقامی رہنما محمد یوسف تاریگامی نے الزام لگایا ہے کہ حکومت سرکاری زمین پر ناجائز قبضے اور تجاوزات ہٹانے کے نام پر مقامی لوگوں بالخصوص دیہات میں رہنے والے نادار کنبوں کو اُس زمین و جائیداد سے محروم کررہی ہے جس پر وہ برسوں سے رہ رہے ہیں یا روزی کمارہے ہیں ۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ''جموں و کشمیر میں محکمۂ مال کے ریکارڈ میں مختلف عنوانات کے تحت لوگوں کے نام رجسٹر اراضی کو ان سے چھینا جا رہا ہے۔ ''
'جموں و کشمیر کے عوام کو بے اختیار بنایا جا رہا ہے'
انہوں نے سوال کیا کہ'' کیا یہ ان اچھے دنوں کا آغاز ہے جس کا وعدہ وزیرِاعظم نریندر مودی نے کیا تھا؟'' انہوں نے بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کے سربراہ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا پر الزام لگایا کہ ''وہ سرکاری اراضی کو ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کرنے کا جھوٹا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔''
انہوں نے کہا کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کرنے کے بعد یہاں جو یکے بعد دیگرے نئے قوانین متعارف کرائے گئے ان کا مقصد مقامی لوگوں کو بے اختیار بنانا اور ان کے مفادات کو نقصان پہنچانا اور معیشت کو کمزور کرنا ہے۔
ان کے بقول ''ریاست کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ حکومت کے اقدامات اور فیصلوں سے صحیح ثابت ہو رہے ہیں۔''
محمد یوسف تاریگامی کا کہنا تھا کہ ''حکومت کا تازہ حکم نامہ جس کے تحت نادار لوگوں کاہچرائی اور شاملات سمیت سرکاری اراضی سے بے دخل کرنے کے لیے سرکاری مشینری کو متحرک کرنا افسوس ناک ہے۔ اس سے ہزاروں نادار کنبوں میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ سرکاری اراضی واگزار کرنے کے نام پر حکومت لوگوں سے ان کی زمینیں چھین رہی ہے اور انہیں افلاس و تنگ دستی کے اندھیروں میں دھکیل رہی ہے۔''
ان کے بقول ''حکومت کی کوشش پرائیویٹ لینڈ بینکس قائم کرنا ہے اور اس کا فائدہ غیرمقامی افراد کو پہنچانا ہے۔''
انہوں نے کہا ''اس سے پہلے حکومت نے کئی ایسے قوانین متعارف کرائے تھےجن کا مقصد غیرمقامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ لیکن حکومت کے تازہ حکم نامے اور اس پر عمل درآمد سے نہ صرف ہزاروں لوگ چھت سے محروم ہوں گے بلکہ ان کی ایک بڑی تعداد سےکاشت کاری کا حق بھی چھن جائے گا۔''
دوسری جانب سابق وزیرِاعلیٰ اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ '' قوانین لوگوں کی بہبود کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن جموں و کشمیر میں انہیں بے اختیار بنانے، بے عزت کرنے اور سزا دینے کے لیے ہتھیار وں کےطور پر استعمال کیا جاتا ہے۔''
سابق وزیر اور جموں و کشمیر پیپلزکانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے ٹوئٹ کی کہ خاندانوں کو تباہ کرنا، بے گھر کرنا یا انہیں غیر محفوظ بنانا بند کیا جائے۔
سجاد لون کی اس ٹوئٹ پر ردِ عمل دیتے ہوئے بی جے پی کے ایک مقامی لیڈر شیخ خالد جہانگیر نے لکھا''حکومت کی اسکیمیں اُن ایمان دار اور حقیقی شہریوں کے لیے ہیں جو صحیح معنوں میں بے بس ہیں۔ حکومت زمین ہتھیا لینے والوں اور چوروں کے لیےاسکیمیں نہیں بناسکتی۔''
ادھر سجاد لون نے اپنی ٹوئٹس میں مؤقف اپنایا تھا کہ ''مخصوص دیہات کے مکینوں کی طرف سے یہاں واقع سرکاری اراضی پر قبضہ کرنا ایک ایسا عمل ہے جو نسل در نسل چلا آرہا ہے اور ایک ایسی حقیقت ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ عمل ملک کے دوسرے حصوں میں بھی رائج ہے اور اس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ملوث ہے جسے بے گھر نہیں کیا جاسکتا۔''
اس کے جواب میں خالد جہانگیر نے کہا کہ ''سجاد صاحب، کیا آپ کے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ ایک دیہاتی کو سرکاری زمین پرناجائز قبضہ کرنے یا اسے ہتھیالینے کا حق اس لیےحاصل ہے کہ ایساکرنا دیہات میں ایک معمول ہے اور وہ لوگ جو شہروں میں چھ فٹ بائی چھ فٹ کے کمروں میں رہتے ہیں انہیں سرکاری زمین پر قابض ہونے یا اس پر تجاوز کرنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ کس قانون کے تحت جائز ہے؟''
حکومت کا مؤقف
دوسری جانب حکومتی عہدیدار اپوزیشن کے ان اعتراضات کو رداور اس کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں ہزاروں ایکٹرسرکاری اراضی پر بے اصول افراد غیر قانونی طور پر قابض ہیں۔ان کے خلاف قانون کے دائرے کے اندر کارروائی کی جا رہی ہے۔
حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ سرکاری اراضی پرناجائز قبضہ کرنے یا اسے اپنی جائز غیر منقولہ جائیداد میں غیر قانونی طور پر لانے والے جن افراد کی نشان دہی کی گئی ہے ان میں کئی سابق وزرا اور اراکین پارلیمان سمیت30 سے زائد سیاست دان بھی شامل ہیں اور ان سب کے خلاف بھی ان کی سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر کارروائی کی جارہی ہے۔
ایک سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "سرکاری اراضی پر ناجائز قبضہ کرنے والوں میں جن لوگوں کی نشان دہی کی گئی ہے انہیں اراضی کو 31 جنوری 2023 سے پہلے حکومت کو واپس لوٹانے یا پھر قانونی کارروائی کے لیے تیار رہنے کے لیے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔"
ان کے بقول'' ان افراد میں کانگریس، نیشل کانفرنس، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی اور چند دیگر اپوزیشن جماعتوں سے وابستہ سیاست دان بھی شامل ہیں جب کہ نئی دہلی میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے عبدالغنی کوہلی اور سابق وزیر اور رکن پارلیمنٹ پروفیسر چمن لال گپتا کے بیٹے انیل گپتا سے بھی ان کے زیرِقبضہ زمینوں کو خالی کرنے کا کہا گیا ہے۔''
حکومتی عہدیدار یہ بھی کہتے ہیں کہ کاہچرائی اور شاملات سمیت سرکاری زمین پر ناجائز قبضوں کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ وہ زمینیں اور دیگر غیر منقولہ جائیدادیں بھی واپس لی جارہی ہیں جن پر 2001میں پاس کیے گئے جموں و کشمیر اسٹیٹ لینڈ ایکٹ (روشنی اسکیم)کے تحت مکینوں کو مالکانہ حقوق حاصل ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کو 2018میں منسوخ کیا گیا تھا اور جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے بھی اس کے تحت عمل میں لائی گئی الاٹمنٹس کو غیر آئینی قرار دے کر انہیں کالعدم کیا تھا۔ لہٰذا ان زمینوں اور جائیدادوں کو ان پر قابض افراد سے چھڑانا ہرگز غیر قانونی یا غیر اخلاقی عمل نہیں ہے۔
حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ روشنی اسکیم کا سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں ، ان کے حامیوں اور پسندیدہ افراد ، چند بیوروکریٹس، بااثر تاجروں اور دیگر لوگوں نے ناجائز استعمال کیا تھااور ان سب کی ملی بھگت سے سرکاری خزانے کو 50ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
البتہ تاریگامی کہتے ہیں اگر روشنی اسکیم کا واقعی غلط استعمال ہوا ہے تو کارروائی صرف ان ہی لوگوں کے خلاف ہونی چاہیے جنہوں نے ایسا کیا ہے نہ کہ عام اور بےقصور افراد بالخصوص نادار دیہاتیوں کے خلاف جو اپنی روزی ان زمینوں سے حاصل کررہے ہیں یا ان پر رہائش پذیرہیں۔
ناقدین یہ بھی کہتےہیں کہ روشنی ایکٹ کے بارے میں عدالتِ عالیہ کے فیصلے پر نظر ثانی کی کئی درخواستیں زیرِ سماعت ہیں اور ان پر فیصلہ آنے تک حکومت مکینوں کو ان زمینوں اور جائیدادوں سے بے دخل نہیں کرسکتی جن پر انہیں اس قانون کے تحت مالکانہ حقوق دیے گئے تھے۔