جمعرات کے روز سری لنکا میں بجلی کی قیمتوں میں 66 فی صد اضافہ کر دیا گیا ہے اور حکومت امید کر رہی ہے کہ اس اقدام سے معاشی بحران کی شکار معیشت کے لیے آئی ایم ایف کو بیل آؤٹ کی فراہمی پر آمادہ کیا جا سکے گا۔
گزشتہ برس حکو مت نے بجلی کی قیمتوں میں 75 فی صد اضافہ کیا تھا۔ اب بجلی اور توانائی کے وزیر کنچنا وجے سیکیرا کی جانب سے مزید اضافے کا اعلان سری لنکا کے عوام کی مشکلات اور بڑھا دے گا جو پہلے ہی 54 فی صد افراطِ زر اور 36 فی صد انکم ٹیکس سے نمٹنے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔
سری لنکا کے بجلی اور توانائی کے وزیر وجے سیکیرا کا کہنا ہے کہ اگرچہ انہیں احساس ہے کہ یہ سری لنکا کے عوام خصوصاً غریب لوگوں کے لیے مشکل ہوگا مگر سری لنکا معاشی بحران میں مبتلا ہے اور قیمتیں بڑھانے کے سوا چارہ نہیں۔
انہوں نے کہا،’’ہمیں توقع ہے کہ اس اقدام سے سری لنکا آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے کے قریب ہو جائے گا۔ ‘‘
گزشتہ ستمبر میں آئی ایم ایف سری لنکا کو 2.9 ارب ڈالر کا قرضہ دینے پر رضا مند ہو گیا تھا تاکہ یہ ملک سات دہائیوں میں اپنے بد ترین معاشی بحران سے نکل سکے مگر اس معاہدے کے ساتھ کچھ شرائط بھی ہیں جن میں ٹیکسوں میں اضافہ، مراعات ختم کرنا اور پبلک سیکٹر کے قرضوں میں کمی شامل ہے۔
صدر رانیل وکرما سنگھے کی حکومت کو، جنہوں نے گزشتہ برس اپنے پیش رو کی معاشی بد انتظامی کے باعث صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد اقتدار سنبھالا تھا، فنڈز کی شدید ضرورت ہے۔ اور وہ جولائی میں اقتدار میں آنے کے بعد سے کثیر الجہتی اداروں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔
وجے سیکیرا کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافے سے ان کی توانائی کی وزارت کو مراعات کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والا فرق پورا کرنے اور تیل کے طویل المدت کنٹریکٹ پورے کرنے میں مدد ملے گی۔
تجزیہ کار کہتے ہیں قیمتوں میں اضافہ افراطِ زر کو اور بڑھا دے گا۔ فرسٹ کیپیٹل ہولڈنگز میں ریسرچ کے سربراہ ڈیمانتھا میتھیو کہتے ہیں،’’ہم افراطِ زر میں معمولی اضافے یعنی 55.5 فی صد کی توقع کر رہے ہیں لیکن آئندہ ماہ اس میں مجموعی طور پر کمی ہوتی جائے گی۔
گزشتہ برس ستمبر میں افراطِ زر کی شرح 73.7 کی ریکارڈ حد تک پہنچ گئی تھی۔
سری لنکا میں آل آئی لینڈ کینٹین اونرز ایسو سی ایشن نامی گروپ ایسے ریستورانوں کی نمائندہ تنظیم ہے جہاں اکثر اوسط آمدنی والے لوگ آتے ہیں۔ اس سے وابستہ اسیلا سمپتھ کا کہنا ہے،’’ ہم یہ لاگت مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے گاہکوں سے بھی معذرت خواہ ہیں مگر اپنی یہ لاگت ان تک منتقل کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔‘‘
( اس خبر میں مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)