امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن عالمی مسائل پر مذاکرات کے لیے اگلے ہفتے وسطی اورجنوبی ایشیا کا دورہ کریں گے ۔ اس سے قبل انہوں نے یوکرین کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اورچین کے اعلیٰ سفارت کار کے ساتھ ملاقات کی۔
محکمہ خارجہ نے جمعرات کو رات گئے اعلان کیا کہ بلنکن چین اورروس سمیت دنیا کے سب سے بڑے صنعتی اورترقی پذیر ممالک کے 20 وزرائے خارجہ کے گروپ کے اجلاس میں شرکت کے لیےبھارت جانے سے پہلے قازقستان اور ازبکستان کا سفر کریں گے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب یوکرین میں روس کی جنگ اورہند بحرالکاہل میں چین کے موقف پرامریکہ کے روس اور چین کے ساتھ تعلقات میں تناؤ بڑھ گیا ہے۔ تینوں ممالک عالمی اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے سخت مقابلہ کر رہے ہیں۔
امریکی حکام نے بلنکن کی نئی دہلی میں چینی وزیر خارجہ چن گانگ یا روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ملاقات کے امکانات کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ لیکن یہ تینوں اعلیٰ سفارت کار جی۔20 اجلاس کے لیے بھارتی دارالحکومت میں موجود ہوں گے۔ محکمہ خارجہ نے صرف اتنا کہا ہے کہ کوئی ملاقاتیں طے نہیں ہیں۔
آخری بار گروپ کا اجلاس 2022 میں انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں ہوا تھا۔ بلنکن نے چین کے اس وقت کے وزیر خارجہ وانگ یی کے ساتھ بات چیت کی، جس کے نتیجے میں نومبرمیں صدر جو بائیڈن اور چینی رہنما شی جن پنگ کے درمیان سربراہی ملاقات ہوئی۔
وانگ نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں جرمنی میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے موقع پر بلنکن سے ایک بار پھرملاقات کی۔ حال ہی امریکہ نے نگرانی کے ایک مشتبہ چینی غبارے کو مار گرایا تھا اور بلنکن نےبیجنگ کا اپنا طے شدہ دورہ ملتوی کر دیا، اس کے بعد یہ پہلی اعلیٰ سطحی بات چیت تھی۔
توقع ہے کہ G-20 اجلاس میں خوراک اور توانائی کی سلامتی پر توجہ مرکوز کی جائے گی، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے، جو یوکرین کے تنازعے کے نتیجے میں متاثر ہوئے ہیں۔ بالی میں، بہت سی اقوام نے، جنہوں نے جنگ کے لیے روس کی سرے سے مذمت نہیں کی ہے، خوراک اور ایندھن کی قیمتوں اور فراہمی پر اس کے اثرات کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دہلی کے سفر سے پہلے، بلنکن قازقستان کے دارالحکومت آستانہ کا دورہ کریں گے اور وہاں کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے ساتھ ساتھ نامی گر C-5+1 وپ کے اجلاس میں شرکت کریں گے، یہ گروپ سابق سوویت جمہوریہ قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان اور امریکہ پرمشتمل ہے۔
محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اس میٹنگ میں وہ اس موقف کا اعادہ کریں گے کہ وسطی ایشیائی ممالک کی آزادی، خودمختاری، اورعلاقائی سالمیت کے لیے امریکہ بدستور پر عزم ہے اور یہ انہیں الفاظ کا عکس ہے جو وہ روس کے خلاف یو کرین کی حمایت کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
اس کے بعد بلنکن ازبک حکام سے بات چیت کے لیے تاشقند جائیں گے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)