سوڈیم ہمارے پٹھوں اور اعصاب کی بہتر کارکردگی اور جسم میں پانی اور معدنیات کے مناسب توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن خوراک میں سوڈیم کی زیادہ مقدار جان لیوا ہو سکتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یا عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اڈانوم گیبریئس کہتے ہیں کہ ’’ہر سال تقریباً 20 لاکھ اموات سوڈیم کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہوتی ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ ’’ سوڈیم کی زیادہ مقدار ہائی بلڈ پریشر کا باعث بن سکتی ہے اور اس سے دل کی بیماریوں کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر سوڈیم کی استعمال کی جانے والی اوسط مقدارڈبلیو ایچ او کی سفارش کردہ مقدار سے دگنی ہے ۔ بالغ افرادکے لیے ادارے کی مقرر ہ حد روزانہ پانچ گرام ہے جو چائے کے ایک چمچے کے برابر ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں پہلی بار یہ معلوم کیا گیا ہے کہ کن ممالک نے سوڈیم کی مقدار میں کمی کی پالیسیوں کو نافذ کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے 194 رکن ممالک کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ’’دنیا 2025 تک سوڈیم کی مقدار کو30 فیصد تک کم کرنے کے عالمی ہدف کے حصول سے کہیں دور ہے‘‘۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی سوڈیم میں کمی کی لازمی اور جامع پالیسیوں کےمطابق رکن ممالک میں سے صرف پانچ فیصد عمل کر رہے ہیں جب کہ73 فیصد رکن ممالک میں ’’ان پالیسیوں کو مکمل طور پر نافذ نہیں کیا گیا‘‘۔
ڈبلیو ایچ او کے صحت اور ترقی سے متعلق اداے کے غذائیت کے شعبے کے ڈائریکٹر فرانسسکو برانکا کا کہنا ہے کہ صحت کو بہتر بنانے اور غیر متعدی بیماریوں میں کمی کےلیے سوڈیم کی مقدار کی پابندی مؤثر ترین طریقوں میں سے ایک ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں قلبی امراض کو روکا جا سکتا ہے۔ دل کی بیماریاں عالمی سطح پر موت کی سب سے بڑی وجہ ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اس سے سالانہ تقریبًاً 18 لاکھ انسانی ہلاکتیں ہوتی ہیں ۔
کامیاب نو ممالک
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف نو ممالک نے سوڈیم کی مقدار کو کم کرنے کے لیے ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ پالیسیوں کو مکمل طور پر نافذ کیا ہے۔ان میں برازیل، چلی، جمہوریہ چیک، لیتھوانیا، ملائیشیا، میکسیکو، سعودی عرب، اسپین اور یوراگوئے شامل ہیں ۔
’’ریزولو ٹو سیو لائوز ‘‘ نامی ادارے کے سی ای او ٹام فریڈن کے مطابق سوڈیم کے استعمال میں کمی کی پالیسیوں کے نفاذ میں چلی سر فہرست ہے۔
رپورٹ کے اجراء کے بعد ساتھی ماہرین کے درمیان ایک ویبنار میں بات کرتے ہوئے فریڈن نے کہا کہ چلی نے ’’فوڈ لیبلنگ اور اشتہارات کے قانون‘‘ کی منظوری دی ہے جس کے تحت ہر پیکج کے ساتھ ساتھ سوڈیم کے پیکچ پر بھی لازمی انتباہی لیبل کی ضرورت ہے۔انہوں نے بتایا کہ ارجنٹائن، برازیل، میکسیکو اور یوراگوئے نے چلی کے بعد یکساں پالیسیاں منظور کیں۔
برانکا نے بتایا کہ خوراک میں سوڈیم کی زیادہ مقدار پہلے سے تیار کیے گئے یا پراسیس شدہ کھانوں میں ہوتی ہے جو زیادہ آمدنی والےمتعدد ممالک اور کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں فروخت کیے جاتے ہیں ۔
فریڈن نے کہا کہ فوڈ مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی طرف سے یہ قواعدو ضوابط غیر موثر ثابت ہوئے ہیں اور ’’رضاکارانہ پالیسیوں کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے‘‘۔
فریڈن کہتے ہیں کہ سوڈیم کا استعمال کم کرنے کے لیے موجودہ حکمت عملیوں کے علاوہ ممالک نئےاختراعی اقدامات پر غور کر سکتے ہیں جن میں سوڈیم اور نمک کے متبادل کے استعمال میں اضافہ کرنا شامل ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ’’حالیہ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ متبادل بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک ، فالج بلکہ دل کی بیماریوں سے ہونے والی اموات کو بھی نمایاں طور پر کم کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ذرا غور کیجئے کہ نمک کے برانڈ کو تبدیل کرنے سے موت کے خطرے کو 10 سے 15 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے‘‘
وی او اے نیوز