آسٹریلیا ، جوہری توانائی سے چلنے والی تین حملہ کرنے والی آبدوزیں، امریکہ سے خریدے گا۔ یہ سودا تین ملکوں کے درمیان کئی عشروں کے ایک معاہدے کے تحت ہو گا جس میں برطانیہ بھی شامل ہے اور جس کا مقصد ایشیاءبحر الکاہل کے خطے میں ایک ایسے وقت میں اتحادیوں کی موجودگی کو مضبوط بنانا ہے جب چین وہاں اپنی فوجی قوت بڑھا رہا ہے۔
صدر جو بائیڈن نے کیلی فورنیا کے مقام سان ڈیاگو میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی حساس جوہری ٹیکنالوجی، آسٹریلیا کو دینا ایک بڑی بات ہے۔ لیکن یہ ضروری بھی ہے۔
بائیڈن نے سان ڈیاگو کے بحری اڈے پر، اس وقت جب ان کے دائیں بائیں دونوں ملکوں کے لیڈر کھڑے تھے، کہا کہ ایسے میں جب کہ ہم تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں، جہاں جارحیت کی روک تھام اور استحکام کو فروغ دینے کا مشکل کام، آنے والے عشروں میں، امن کے امکانات پر اثر ڈالے گا، امریکہ کو ہند بحر الکاہل میں اس سے بہتر حلیف نہیں مل سکتے جن سے ہمارے مشترکہ مستقبل کا بڑا حصہ وابستہ ہو گا۔
کئی عشروں کے اس معاہدے کے تحت امریکہ اور برطانیہ کی جوہری ایندھن سے چلنے والی آبدوزیں 2027 تک آسٹریلیا کے پانیوں میں گشت شروع کر دیں گی۔ 2030 کے عشرے کے اوائل تک آسٹریلیا کم از کم تین سے پانچ تک جوہری ایندھن سے چلنے والی ایسی امریکی آبدوزیں خریدے گا، جو روایتی ہتھیاروں سے لیس ہوں گی اور جو دوسری آبدوزوں کو تلاش کرکے ان پر حملہ کر سکتی ہوں۔
تینوں ملک مل کر ایک نئی جوہری حملہ آور آبدوز بنانے کے لیے کام کریں گے۔ اس منصوبے پر دو عشرے تک لگ سکتے ہیں۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ اس معاہدے سے جس کی مالیت کوئی150 ارب امریکی یا 200 ارب آسٹریلوی ڈالر ہو گی روز گار کے مواقع پیدا ہوں گے اور جدت اور تحقیق کو فروغ حاصل ہو گا۔
برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے بھی اعلان کیا کہ ان کا ملک بھی، دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے جی ڈی پی کے ڈھائی فیصد کے مساوی اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ کرے گا۔
بیجنگ نے اس پارٹنر شپ پر نکتہ چینی کی ہے اور واشنگٹن پر رقابت اور تصادم کو ہوا دینے کا الزام عاید کیا ہے۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بحر الکاہل کے خطے میں چینی جارحیت اس فیصلے کا سبب بنی ہے۔
(وی او اے نیوز)