ادارتی نوٹ: یہ مضمون پہلی بار اپریل 2022 میں شائع ہوا تھا۔
پانچ جنوری 1928 کو صوبۂ سندھ کے شہر لاڑکانہ کے علاقے رتوڈیرو میں پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ تب سندھ برٹش انڈیا کی بومبے (موجودہ ممبئی) پریزیڈینسی کا حصّہ تھا۔
سن 1991 میں شائع ہونے والی بھارتی مصنف اور مہاتما گاندھی کے نواسے راج موہن گاندھی کی کتاب 'پٹیل - اے لائف' کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو ریاست جونا گڑھ کے دیوان تھے اور ریاست کی ایک 'محلّاتی بغاوت' کے نتیجے میں وہ ریاست میں سیاہ و سفید کے مالک بن گئے تھے۔
ابتدائی عمر میں ذوالفقار بھٹو ممبئی کے وورلی سی فیس کے علاقے میں منتقل ہوئے جہاں پہلے انہوں نے طبقۂ اُمرا کے لیے 1860 میں قائم ہونے والے نجی تعلیمی ادارے دی کیتھیڈرل اینڈ جون کینن اسکول سے تعلیم حاصل کی۔
یہاں سے وہ اشرافیہ کے لیےمخصوص سمجھے جانے والےسینٹ زیویئرز کالج جا پہنچے جو 1869 میں قائم ہوا تھا۔
سن 1943 میں ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی شادی شیریں امیر بیگم سے اور ستمبر 1951 میں دوسری شادی کرد نژاد ایرانی شہری نصرت بھٹو سے ہوئی۔نصرت بھٹو ایران کے شہر اصفہان سے تعلق رکھتی تھیں اور انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ذوالفقار اور نصرت بھٹو کے چار بچّے تھے جن میں بے نظیر کے علاوہ میر مرتضیٰ ، صنم اور شاہنواز شامل تھے۔
چوٹی کے ملکی اداروں سے حصولِ تعلیم کے بعد بھٹو 1947 میں پہلے سیاسیات (پولیٹیکل سائنس) کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا (امریکہ) پہنچے اور وہاں سے بطور سوفومورر (دوسرے برس کے طالبِ علم) یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلی منتقل ہوئے جہاں انہوں نے 1950 میں سیاسیات میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ یہیں نوجوان بھٹو سوشلزم کے نظریات سے متاثر ہوئے جو آئندہ سیاسی زندگی میں ہمیشہ اُن کی دلچسپی کا محور رہے۔
راج موہن گاندھی کی کتاب کے مطابق اسی دوران جونا گڑھ کے معاملات میں 'مختار' بن جانے والے اُن کے والد سر شاہنواز بھٹو دسمبر 1947 میں بھارت سے الحاق کی دعوت مسترد کرتے ہوئے خود مختار ریاست جونا گڑھ کے پاکستان سے الحاق میں کامیاب ہوگئے۔
جون 1950 میں ذوالفقار علی بھٹو نے برطانیہ کی آکسفرڈ یونیورسٹی کے کرائسٹ چرچ کالج سے شعبۂ قانون میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ بعض ذرائع کے مطابق یہیں انہوں نے پہلے قانون اور پھر سیاسیات میں بھی ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی اور 1953 میں لندن کے معروف تعلیمی ادارے 'لنکنز اِن' سے بیرسٹر کا خطاب حاصل کیا۔
نوجوان وزیرِ خارجہ جو پہلے ہی اپنی قابلیت کی دھاک بٹھا چکے تھے
پچاس کی دہائی میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے والے ذوالفقار علی بھٹو وزیرِ خارجہ مقرر ہونے سے چھ برس قبل ہی عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی بھی کرچکے تھے اور پاکستان سے متعلق کئی اہم عالمی امور نمٹا بھی چکے تھے۔
اکتوبر 1957 میں وہ اقوامِ متحدہ کے ایک اجلاس میں پاکستانی وفد کے سب سے کم عمر رکن بنے۔اگلے ہی سال انہوں نے بین الاقوامی بحری قوانین پر اقوامِ متحدہ کے اجلاس 'یونائیٹڈ نیشن کنونشن آن دی لا آف سی' میں پاکستانی وفد کی قیادت کی۔
سن 1958 میں ذوالفقار علی بھٹو اسکندر مرزا کی کابینہ کے سب سے کم عمر رکن بنے اور وزیرِ تجارت رہے۔ بعد ازاں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ایوب خان نے 1960 میں انہیں اپنی کابینہ میں وزیرِ آبپاشی و توانائی، مواصلات و صنعت مقرر کیا۔
سماجی طور پر بالا دست طبقۂ امرا سے تعلق رکھنے والے ذیڈ اے بھٹو اپنی صلاحیت و قابلیت، بے باکی و شعلہ بیانی کی بنیاد پر ملک پر حکمراں فوجی آمر جنرل ایوب خان کو ایسے بھائے کہ اُن کے سب سے قابل اعتماد ساتھی اور سب سے چہیتے مشیر بن گئے۔
19 ستمبر 1960 کو عالمی بینک کی ثالثی سے بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائے سندھ کے آبی وسائل کی تقسیم کے لیے اجلاس کراچی میں ہوا۔ جب پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے دستاویزات پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے صدر کی مدد کی۔
اگلے برس انہوں نے پاکستان اور روس کے درمیان تیل کی تلاش کے معاہدے کے لیے مذاکرات کیے جن کے تحت روس نے پاکستان کو اقتصادی و تکنیکی معاونت فراہم کی۔
امورِ سیاسیات اور تاریخ کےموضوعات پر لکھی گئی کتابوں کے مطابق یہ وہ دور تھا جب دنیا اور پاکستان دونوں ہی عجیب حالات سے گزر رہے تھے۔
محض سولہ برس پہلے ہی قائم ہونے والا پاکستان سیاسی کھینچا تانی کا شکار دکھائی دے رہا تھا۔
اشرافیہ پر مشتمل سیاسی قیادت اور نوکر شاہی و فوج پر مشتمل ریاستی مشینری کے درمیان رسّہ کشی کا ماحول تھا۔
محلاتی سازشوں اور عالمی ہلچل کے دور میں نوجوان وزیرِ خارجہ کا امتحان
ادھر مغرب کی سرمایہ دارانہ حکومتیں اور ریاستیں سوشلسٹ روس کے بعد سوشلسٹ چین اور کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے خائف دکھائی دے رہی تھیں۔ بھٹو تو سوشلسٹ نظریات سے متاثر تھے مگر پاکستان کے اپنے سیاسی تقاضے تھے۔
جمہوری تقاضوں کے مطابق اس کا جائزہ لینے والے وزیر خارجہ بھٹو کے لیے اپنا کام آسان نہیں تھا۔
باقی دنیا کا حال یہ تھا کہ چین پر ماؤزے تنگ کی کمیونسٹ پارٹی کے تسلط کے بعد تائیوان نے علیحدہ حکومت کے قیام کا اعلان کردیا تھا اور یہ حکومت خود کو چین کی حکومت کہلوا رہی تھی۔
یہ تقسیم ویسی ہی تھی جیسے شمالی و جنوبی کوریا ، یا مشرقی و مغربی جرمنی یا پھر جنوبی و شمالی ویتنام۔
سن 1964 میں جب دنیا ایک ہی چین کی دو دعویدار حکومتیں دیکھ ہی رہی تھی کہ 'سیٹلائٹ اسٹیٹ 'کہلانے والا کئی ممالک پر مشتمل مشرقی بلاک منقسم ہوگیا اور عالمی سوشلسٹ تقسیم عمل میں آئی۔
روس اور چین کی سوشلسٹ قیادت میں نظریاتی اختلافات کے نتیجے میں ان ہی سیاسی نظریات کے حامل ممالک کے درمیان دراڑیں پیدا ہورہی تھیں جس کا حصّہ البانیا، بلغاریہ، کیوبا، (اُس وقت کا) چیکو سلواکیہ، مشرقی جرمنی، ہنگری، منگولیا، پولینڈ، رومانیہ، سوویت یونین، ویتنام، افغانستان، انگولا، چین، کانگو، ایتھوپیا، شمالی کوریا، شمالی ویتنام، صومالیہ، جنوبی یمن، اور یوگوسلاویہ جیسے ممالک تھے۔
سن 1956 سے 1966 کی یہ دہائی عالمی ہلچل کی دہائی تھی۔ مارکسزم اور لینن ازم جیسے نظریات سے انحراف کے الزام کی بنیاد پر روسی اور چینی بلاک کی یہ تقسیم دنیا کو ششدر کیے ہوئےتھی۔
ایسے وقت میں محض البانیا اور پاکستان ہی چین کے حامی دکھائی دے رہے اور یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے اقوامِ متحدہ میں چین کی بے دریغ اور کھلی حمایت کی جراْت کی۔
ابھی وہ وزارت خارجہ پر فائز بھی نہیں ہوئے تھے کہ انہوں نے عالمی سطح پر کھلبلی مچا دی۔
انٹرنیٹ پر دستیاب ویڈیو میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے ذوالفقار بھٹو کا یہ خطاب دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو میں چین کے مندوب کی شمولیت پر ذوالفقار بھٹو کا یہ جراْت مندانہ اصرار دیکھا جاسکتا ہے جہاں وہ پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے خطاب کررہے تھے۔
انہوں نے کہا “اِن گھمبیر حالات میں جہاں ایسی پیشرفت جنم لی رہی ہے جو پوری انسانیت کے مستقبل کے لیے فیصلہ کُن بھی ثابت ہوسکتی ہے ، یہ انتہائی قابلِ افسوس ہے کہ چین اب تک اقوامِ متحدہ سے باہر ہے۔ لیکن اگر یہ اخراج جاری رہتا ہے تو اقوامِ متحدہ بین الاقوامی مسائل خصوصاً ایشیا سے متعلق معاملات میں خود کو مؤثر طور پر نافذ کرنے میں بے دست و پا اور بے اثر پائے گی‘‘۔
اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے اسی خطاب میں امریکہ سے بھی تعلقات استوار کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر اُن کے اِس خطاب پر اقوامِ متحدہ میں زبردست تنقید ہوئی۔
یہاں تک کے 1963 سے 1969 تک امریکہ کے (چھتیسویں) صدر رہنے والے لنڈن بی جانسن نے ذوالفقار بھٹو کو تحریری طور پر تنبیہ کی جس میں پاکستان کے لیے دھمکی واضح تھی۔
سن 1999 میں ٹیکساس یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والی ایچ ڈبلیو برانڈز کی کتاب “دی فارن پالیسی آف لنڈن بی جانسن بیانڈ ویتنام” کے مطابق صدر جانسن نے اپنے خط میں کہا کہ “اب اگر انہوں (ذوالفقار بھٹو) نے چین کی حمایت میں ایک بار بھی خطاب کیا تو اس سے پاکستان کی امداد خطرے میں پڑ جائے گی۔"
لیکن شعلہ بیاں ذوالفقار بھٹو نے صدر جانسن کی یہ تنبیہ خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی پالیسی جاری رکھی اور یہی جارحانہ انداز و مزاج انہیں پاکستان کی وزارتِ خارجہ تک لے گیا۔
قائدانہ صلاحیت اور جارحانہ انداز ہی کے بل پر وہ نہ صرف اندرون ملک طاقت و اقتدار کی راہداریوں پہنچے بلکہ عالمی سطح پر نمایاں اہمیت حاصل کرنے لگے۔
وزیرِ خارجہ پاکستان مقرر ہونے سے قبل ہی 31 جنوری 1962 کو ذوالفقار بھٹو جب چین کے دورے پر پہنچے تو اُن کا والہانہ اور فقید المثال استقبال کیا گیا۔
انٹرنیٹ پر دستیاب ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ (چین و پاکستان کی ثقافت کے امتزاج کے طور پر) ماؤزے تنگ اسٹائل کے چائنیز سوٹ (کوٹ پینٹ) پر جناح کیپ لگائے ہوئے ذوالفقار بھٹو جب پیکنگ (اب بیجنگ) کے ہوائی اڈّے پر جہاز سے اترے تو اعلیٰ چینی عہدیداران اُن کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
انہیں زبردست گارڈ آف آنر دیا گیا اور وہاں موجود ثقافتی طائفے نے بھی شاندار انداز میں انہیں خوش آمدید کہا۔
ذوالفقار بھٹو نے چینی سوشلسٹ انقلاب کے قائد ماؤزے تنگ سے بڑی گرمجوشی سے ملاقات کی۔
ذوالفقار بھٹو نے چین کی حکومت سے عسکری و تجارتی معاہدوں پر بات چیت کے لیے اپنے صدر ایّوب خان کی مدد کی اور انہی مذاکرات کے نتیجے میں چین کئی فوجی و صنعتی منصوبوں پر پاکستان کی مدد کے لیے رضامند ہوا۔
وزیرِ خارجہ تعینات ہونے سے تین ماہ قبل بھی یعنی دو مارچ 1963 کو ذوالفقار بھٹو نے پیکنگ میں 'سینو-پاکستان باؤنڈری ایگریمنٹ' نامی معاہدے پر دستخط کیے۔اس معاہدے کے تحت چین اور پاکستان کی سرحدوں کا تعین کیا گیا۔
چینی حکومت کی جانب سے مارشل شین ای اور پاکستان کی طرف سے ذوالفقار بھٹو کے دستخط سے ہونے والے اس معاہدے کے تحت چین نے ہزاروں مربع کلومیٹر کا علاقہ پاکستان کے حوالے کیا جب کہ پاکستان نے کشمیر اور لداخ کے کچھ علاقوں پر چین کا حق تسلیم کر لیا۔ اس معاہدے کو بھارت نے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
15 جون 1963 کو ذوالفقار بھٹو جنرل ایّوب خان کی حکومت میں پہلی مرتبہ پاکستان کے آٹھویں وزیر خارجہ مقرر ہوئے۔
وہ 'نان الائنمنٹ موومنٹ' یا غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کو بھی درست سمجھنے پر اصرار کرتے رہے اور اسی حکمتِ عملی نے پاکستان کو ایسی تنظیموں میں ایک بااثر ریاست بنا دیا۔
نان الائنمنٹ موومنٹ دراصل 120 ممالک کا ایسا غیر جانبدار اشتراک تھی جو جنگ کوریا کے بعد سرد جنگ کے دو قطبی (بائی پولر) ماحول میں وجود میں آیا تھا۔
اس بلاک کے تمام رکن ممالک رسمی طور پر بڑی عالمی طاقتوں میں سے کسی کے ساتھ بھی وابستہ نہیں تھے۔
بعض تجزیہ نگاروں اور ذرائع ابلاغ کے مطابق بھٹو بین الاسلامی اتحاد پر بھی یقین رکھتے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے انڈونیشیا اور سعودی عرب جیسے ممالک سے تعلقات کو فروغ دیا۔
بطور وزیر خارجہ دراصل ذوالفقار بھٹو نے (اُس وقت تک کی)پاکستان کی 'مغرب نواز خارجہ پالیسی' کو نمایاں طور پر بدل کر رکھ دیا۔
انہوں نے پاکستان کے لیے 'سیٹو' اور 'سینٹو' جیسے معاہدوں میں ایک نمایاں مقام برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسی خارجہ پالیسی مرتب کرنا شروع کی جو 'امریکی اثر سے آزاد' قرار دی جانے لگی۔
ذوالفقار بھٹو نے اشتراکی روس کے خلاف امریکی آشیرباد سے بننے والے 'سیٹو' اور 'سینٹو' دونوں علاقوائی اتحادوں میں پاکستان کا مقام تو برقرار رکھا مگر اپنی خارجہ پالیسی میں 'امریکی اثرات سے آزاد' بھی ہونا چاہا۔
ذوالفقار بھٹو نے مشرقی اور مغربی جرمنی دونوں ممالک کے دورے کیے اور دونوں ہی سے مضبوط تعلقات بھی قائم کر لیے اور جرمنی سے اقتصادی، تیکنیکی، صنعتی، اور فوجی معاہدے بھی کیے۔ انہوں نے 1962 میں پولینڈ کا دورہ بھی کیا۔
بھارتی اخبار 'دی ٹائمز آف انڈیا' کے جریدے 'بومبے ٹائمز' کی 14 مارچ 2011 کی اشاعت میں جگ سوریا کے مضمون 'ڈیلنگ ود اے سپر پاور بائی ذوالفقار علی بھٹو' کے مطابق 1962 میں چین نے بڑھتے ہوئے علاقائی اختلافات کی بنیاد پر شمالی بھارتی علاقوں پر حملے کا منصوبہ بنایا ۔ چینی وزیراعظم چُو این لائی اور قائد انقلاب ماؤزے تنگ نے پاکستان کو بھی دعوت دی کہ وہ بھی اسی وقت حملے کا ساتھ دیتے ہوئے بھارت کو نشانہ بنائے اور ریاست جموں و کشمیر واپس چھین لے۔
مضمون کے مطابق بھٹو تو راضی تھے مگر صدر ایوب نے منصوبے کی مخالفت کی کیوں کہ انہیں بھارت کی ممکنہ جوابی فوجی کارروائی کا خدشہ تھا۔
بلکہ ایّوب نے تو بھارت کے ساتھ ایک مشترکہ دفاعی اتحاد تشکیل دینے کی تجویز دی۔ مضمون کہتا ہے کہ بھٹو ایوب خان کے اس مؤقف پر حیران رہ گئے انہیں لگا کہ صدر ایّوب عالمی امور سے بالکل لاعلم ہیں اور کچھ نہیں جانتے۔
مضمون کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو یقین دلوایا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور کشمیری عوام کی خواہشات و امنگوں کے مطابق حل کروا دیا جائے گا اور یہی وجہ تھی کہ ایّوب خان بھارت پر حملے کے چینی منصوبے کا حصّہ بننے سے گریزاں تھے۔
بھٹو جانتے تھے کہ پاکستان کی سیٹو اور سینٹو جیسے کمیونسٹ مخالف مغربی اتحادوں میں شمولیت و رکنیت کے باوجود چین پاکستان پر تنقید سے باز اور گریزاں رہا ہے۔
بھٹو نے 1962 میں چین بھارت جنگ کے دوران بھارت کو فوجی مدد فراہم کرنے پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ تنقید پاکستان اور امریکہ کے اتحاد میں دراڑ کے طور پر دیکھی گئی۔
بھارت کے خلاف جارحانہ پالیسی
'فیڈریشن آف امیریکن سائنٹسٹس' کے لیے لکھے گئے کیری سبلیٹ کے مضمون 'پاکستانز نیوکلئیر پروگرام ، دی بگننگ' کے مطابق ذوالفقار بھٹو نے اپنی وزارتِ خارجہ کے دوران ہمیشہ ہی بھارت مخالف جارحانہ خارجہ پالیسی اور حکمت عملی اپنائی۔
سن 1965 میں پاکستانی جوہری سائنسدان اور ذوالفقار بھٹو کے دوست منیر احمد خان نے بھٹو کو بھارتی ایٹمی پروگرام کی پیشرفت سے آگاہ کیا تو بھٹو نے کہا اگر بھارت ایٹم بم بنائے گا تو پاکستان لڑے گا۔ ایک ہزار سال تک لڑے گا۔ ہم گھاس پھوس کھا لیں گے۔۔۔ حتّیٰ کے بھوکے رہ لیں گے ۔۔ مگر ہم اپنا بھی اپنا ایٹم بم بنائیں گے۔ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔”
سن 1969 میں اپنی ہی کتاب 'دی متھ آف انڈپینڈینس' میں ذوالفقار بھٹو نے دلیل دی کہ ایٹم بم حاصل کرنا پاکستان کی ضرورت بن گیا تھا۔
کیری سبلیٹ کے مطابق پھر پاکستان نے صنعتی طور پر ترقی یافتہ اقوام اور جوہری بم سے مسلّح بھارت کے سامنے ڈٹ جانے کے لیے ایک مزاحمتی (ڈیٹرنس) پروگرام بھی شروع کردیا۔
پاکستان کے اس ایٹمی پروگرام کے لیے ذوالفقار بھٹو نے باقاعدہ ایک منشور تیار کرکے مستقبل کی حکمتِ عملی ترتیب دی کہ کس طرح نیوکلیئر پروگرام ترتیب دیا جائے گا اور کون کون سے سائنس دان اس پر کام کرسکیں گے۔
پھر انہوں نے منیر احمد خان اور نوبیل انعام یافتہ سائنس دان عبدالسلام کو منتخب کیا۔ مضمون کے مطابق ڈاکٹر عبدالسلام احمدی مسلک سے تعلق رکھتے تھے ، وہ ہی احمدی مسلک جسے ذوالفقار بھٹو کی حکومت میں ہی پاکستان میں غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔
سن 1965 میں ایّوب خان نے(بھارت کے زیر انتظام) کشمیر کو 'آزاد' کروانے کی فوجی کارروائی یعنی 'آپریشن جبرالٹر' شروع کردیاجسے ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت بھی حاصل تھی۔
جگ سوریا کے مضمون کے مطابق یہ آپریشن ایک ناکامی اُس وقت بن گیا جب بھارتی مسلّح افواج نے مغربی پاکستان پر جوابی حملہ کر دیا اور 1965 کی پاکستان بھارت جنگ شروع ہوگئی۔
یہ جنگ دراصل رن آف کچھ کے علاقے میں مارچ 1965 سے اگست 1965 تک پہلے ہی سے جاری جھڑپوں کا تسلسل تھی جو پاکستان اور بھارت کے درمیان جموں کشمیر اور پنجاب کی بین الاقوامی سرحد پر ہو رہی تھیں۔
تب بھٹو نے ازبکستان پہنچ کر صدر ایّوب اور بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے درمیان ہونے والے جنگ بندی کے مذاکرات 'معاہدۂ تاشقند' پر اپنے صدر کی پھر مدد کی۔
اس معاہدے کے تحت صدر ایّوب اور وزیراعظم شاستری دونوں نے جنگ بندی پر اتفاق کیا کہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا اور فوجیں جنگ سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی۔
یہ معاہدہ پاکستان میں انتہائی غیر مقبول رہا جس کی وجہ سے ایّوب حکومت کے خلاف بڑی سیاسی بے چینی نے بھی جنم لیا۔
بہت سے قومی و عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ذوالفقار بھٹو نے بھی بعد ازاں اس معاہدے کے حتمی مسودے پر کڑی تنقید کی اور یہیں سے ایّوب خان اور اُن کے چہیتے مشیر و مددگار ذوالفقار بھٹو کے درمیان اختلافات نے جنم لیا۔
ابتدا میں تو ذوالفقار بھٹو نے ایّوب خان سے اختلافات کی چہ مگوئیوں کو افواہ قرار دے کر اِن کی تردید کی مگر بالآخر انہوں نے 1966 میں مستعٰفی ہونے کے بعد 30 نومبر 1967 کو اپنی علیحدہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی قائم کرلی اور ایّوب خان کی شدید مخالفت شروع کردی۔
وزارتَ خارجہ سے استعفیٰ سے کر ذوالفقار بھٹو 21 جون کو لاہور پہنچے جہاں انہوں نے ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا اور پھر ایّوب خان کے خلاف عوام میں غصّہ محسوس کرتے ہوئے ذوالفقار بھٹو نے ملک بھر میں جلسے کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔
وزارت خارجہ کا دوسرا دور
پچیس مارچ 1969 کو ایّوب خان نے اقتدار جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے حوالے کردیا۔ یحییٰ خان ملک پر حکومت کر ہی رہے تھے کہ 16 دسمبر 1971 کو سقوطِ ڈھاکہ ہو گیا اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آگیا۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کررہے تھے۔
انہیں واپس لانے کے لیےپی آئی اے کی ایک خصوصی پرواز روانہ کی گئی اور وطن واپسی پر ٹوٹ جانے والے پاکستان اور قوم کے پست حوصلے کی بحالی کے لیے ذوالفقار بھٹو کو پاکستان کے دو اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر تعینات کیا گیا یعنی بیک وقت ملک کا صدر اور پہلا سویلین 'چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر' بنایا گیا۔
پھر بالآخر 14 اگست 1973 کو یہی ذوالفقار علی بھٹو 146 ارکان کی اسمبلی میں 108 ووٹ حاصل کرکے ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔
وہ 20 دسمبر 1971 سے 13 اگست 1973 تک باقی ماندہ پاکستان کے صدر اور 14 اپریل 1972 سے 15 اگست 1972 تک اسپیکر قومی اسمبلی اور پھر 14 اگست 1973 سے 5 جولائی 1977 تک وزیر اعظم رہے۔
اس دوران پاکستان کے بارہویں وزیر خارجہ کا قلمدان بھی انہی کے پاس رہا یعنی وہ دوسری مرتبہ وزارت خارجہ کے انچارج رہے۔
یہ باقی ماندہ پاکستان کے لیے امور خارجہ کا بہت کڑا دور تھا۔ پاکستان دو لخت ہوچکا تھا۔ عالمی سطح پر اس کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ رہے تھے اور سب سے بڑھ کر بنگلہ دیش بن جانے کے بعد وہاں 93,000 پاکستانی فوجی جنگی قیدی تھے۔
ایسے میں ذوالفقار بھٹو نے 5,000 مربع میل کا علاقہ چھڑوانے اور جنگی قیدی رہا کرنے کی غرض سے دو جولائی 1972 کو بھارت کے ساتھ وہ سمجھوتہ کیا جسے دنیا 'شملہ معاہدے' کے نام سے جانتی ہے۔
دراصل 'شملہ معاہدے' کا مسودہ 28 جون 1972 کو تیار کیا گیا جس پر بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ کے راج بھون کے بارنس کورٹ میں دستخط ہوئے۔
بھارت نے قیام بنگلہ دیش کے وقت بنگلہ دیش کی تحریک آزادی' یا 'جنگِ آزادی' کے دوران مشرقی پاکستان میں مداخلت کرکے پاکستانی فوج سے برسرپیکار بنگالیوں کا ساتھ دیا۔
چونکہ فیصلہ کُن بھارتی مداخلت سے ہی بنگلہ دیش کا قیام ممکن ہوسکا اور پاکستان ٹوٹ رہا تھا لہذٰا 1971 کی پاکستان بھارت جنگ شروع ہوگئی۔
جنگ کے بعد 93,000 پاکستانی فوجی نئے قائم ہونے والے بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈال کر جنگی قیدی بن گئے اور پاکستان اور بھارت کے مسلّح تنازع کا معاملہ الجھا تو اس سمجھوتے کی ضرورت پڑی۔
اس معاہدے پر ذوالفقار بھٹو نے صدر پاکستان اور اندرا گاندھی نے وزیر اعظم بھارت کی حیثیت سے دستخط کیے۔
اسی معاہدے کے تحت پاکستان کی جانب سے نوزائیدہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرلینے کی راہ بھی ہموار ہوئی۔
او آئی سی سربراہ اجلاس
وزارتِ خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھتے ہوئے ذوالفقار بھٹو کے دوسرے دور میں ایک اور بڑی پیشرفت لاہور میں ہونے والی اسلامی ممالک تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کا دوسرا سربراہی اجلاس ہے۔
یہ اجلاس 22 سے 24 فروری 1974 تک ہوا جس میں مسلم دنیا کے کئی رہنما لیبیا کے سربراہ معمّر قذافی ، مصر کے حکمراں انور السادات ، شام کے حکمراں حافظ الاسد ، سعودی فرمانروا شاہ فیصل اور اردن کے بادشاہ شاہ حسین شامل تھے۔
سب سے خاص بات یہ تھی کہ پاکستان نے خود ہی سے الگ ہو کر نئی قائم ہونے والی ریاست کو سرکاری سطح پر 'عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش'کے طور پر تسلیم کرلیا۔
ذرائع ابلاغ کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ بنگلہ دیش کو علیحدہ ریاست تسلیم کرنے کے لیے دراصل عرب دنیا کے کئی اسلامی ممالک کے سربراہان کی جانب سے ذوالفقار بھٹو پر دباؤ تھا کہ بنگلہ دیش کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن کو بھی اجلاس میں مدعو کیا جائے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کا ایک سات رکنی وفد شیخ مجیب کو مدعو کرنے کے لیے ڈھاکہ بھی گیا تھا۔
پاکستان نے 22 فروری کو ہی بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا اور شیخ مجیب بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ جواباً ذوالفقار بھٹو نے جولائی 1974 میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ دونوں ممالک کے سرکاری تعلقات 18 جنوری 1976 کو بحال ہوئے۔
او آئی سی اجلاس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان اور عرب دنیا میں مثالی تعلقات قائم ہوئے بلکہ ذوالفقار بھٹو کی شخصیت بھی عالمگیر رہنما کے طور پر ابھری۔
مگر آئندہ کے سیاسی حالات میں ذوالفقار بھٹو کی یہ حکومت تب ختم کر دی گئی جب پانچ جولائی 1977 کو فوج نے جنرل ضیاالحق کی قیادت میں ذوالفقار بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
ذوالفقار بھٹّو گرفتار ہوئے اور عوامی احتجاج اور دباؤ پر رہا تو ہوگئے لیکن 16 ستمبر 1977 کو انہیں سیاسی مخالف نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔
مقدمے کے بعد جسے کئی مغربی و عالمی ماہرین نے ناقص قرار دیا 18 مارچ 1978 کو ذوالفقار بھٹو کو موت کی سزا سنا دی گئی۔
ذوالفقار بھٹو نے صدر سے معافی کی اپیل کا قانونی حق تو استعمال نہیں کیا لیکن یہاں بھی ذوالفقار بھٹو کی عالمی شخصیت کی اہمیت تب ثابت ہوئی جب روسی اور امریکی صدور سمیت کئی عالمی رہنماؤں نے جنرل ضیاالحق سے اپیل کی کہ ذوالفقار بھٹو کی موت کی سزا معاف کردی جائے۔
مگر جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت نے یہ اپیل نہ مانی اور چار اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔