ایک ایسے وقت میں جب مسلمانوں کے لیے تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصی کے اندر بدھ کے روز اسرائیلی پولیس کی طرف سے فلسطینیوں پر تشدد کی عالمی سطح پر مذمت کی جارہی ہے،عسکریت پسندفلسطینیوں نے جمعرات کو علی الصبح متعدد راکٹ فائر کیے ہیں۔ ان راکٹ حملوں کے بعد جنوبی اسرائیل میں فضائی حملے سے متعلق انتباہی سائرن بجائے گئے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی سے داغے گئے سات راکٹ فضا میں پھٹ گئے۔ کسی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
راکٹوں کا حملہ یروشلم کے سب سے حساس مقدس مقام، مسجد اقصیٰ میں دوسری رات اس کشیدگی کے بعد کیا گیاجہاں اسرائیلی پولیس کی ان مسلمان نمازیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں جو وہاں رات گزارنے کی کوشش کر رہے تھے۔
رمضان کے مہینے کے آغاز کے بعد سے بہت سےمسلمانوں نے مسجد میں رات گزارنے کی کوشش کی ہے،جس کی عام طور پر رمضان کے آخری 10 دنوں میں اجازت ہوتی ہے۔
تشدد کا یہ واقعہ رمضان کے مہینے اوریہودیوں کےتہوار ’ پاس اوور ‘ کے دوران عمل میں آیا ہے۔
ایک فلسطینی عینی شاہد،عبدالکریم نے الزام لگایا کہ بدھ کو اسرائیلی پولیس نے جو لاٹھیوں، آنسو گیس کے دستی بموں اور دھواں پیدا کرنے والےبموں سے لیس تھی مسجد میں گھس کربدھ کی صبح وہاں عبادت کرنے والی خواتین اور مردوں کو مارا پیٹا۔
سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس مسجد کے اندر فرش پر لوگوں کو مار پیٹ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے جب ان تصاویر کو دیکھا تو وہ ان کے بقول دہشت زدہ اور حیران" رہ گئے ۔اقوام متحدہ کے سربراہ کے ردعمل کو نیوز نیٹ ورکس اور صارفین نے ٹوئٹر پر شیر کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی ٹور وینس لینڈ نے کہا کہ وہ الاقصیٰ میں تشدد کی تصاویر سے دہشت زدہ ہیں، انہوں نے فلسطینیوں کو زدوکوب کئے جانے اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں ک کی طرف سے دھماکہ خیز مواد اور پتھروں کو ذخیرہ کرنے کی اطلاعات کی بھی مذمت کی۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکہ "تشدد کے جاری رہنے سے انتہائی پریشان ہے اور ہم تمام فریقوں سے مزید کشیدگی سے بچنے کی اپیل کرتے ہیں۔"
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے، جن کا ملک اور اسرائیل تعلقات کو از سر نوتشکیل دے رہے ہیں کہا، "مسجد الاقصیٰ کی پامالی ہمارے لئے سرخ لکیر ہے۔"
فلسطینی شہری امور کے وزیر حسین الشیخ نے الاقصیٰ کے اندر اسرائیلی پولیس کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "بربریت کی اس سطح پر ،فوری نوعیت کے ،فلسطینی، عرب اور بین الاقوامی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اسرائیلی پولیس نے کہا کہ فلسطینیوں نے بدھ کی شام سے شروع ہونے والے پاس اوور سے قبل منگل کی شام سے ہی مسجد کے اندر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں سے بات چیت کی طویل کوشش میں انہیں وہاں سے ہٹانے میں ناکامی کے بعد پولیس کو "فجر کی نماز کی اجازت دینے ،اور پرتشدد ہنگامہ آرائی کو روکنے کے لئے انہیں باہر نکالنے کے لیے کمپاؤنڈ میں داخل ہونے پر مجبور ہوگئی۔"
پولیس نے کہا، "جب پولیس اندر داخل ہوئی تو ان پر پتھراؤ کیا گیا اور مشتعل افراد کے ایک بڑے گروپ کی طرف سے مسجد کے اندر سے آتش بازی کی گئی۔" نیتن یاہو نے کہا کہ "سکیورٹی فورسز کو نظم و ضبط کی بحالی کے لیے کارروائی کرنے پر مجبور کیا گیا"۔ چند گھنٹوں کے اندر، کم از کم نو راکٹ غزہ سے اسرائیل کی طرف فائر کیے گئے، فوج نے کہا کہ "جواب میں" جنگی طیاروں نے حماس کے دو مشتبہ ہتھیار بنانے والے مقامات کو نشانہ بنایا۔
فلسطینیوں کی جانب سے مقبوضہ علاقے سے راکٹوں کےحملوں کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شئیر کی جارہی ہیں۔
ٹوئٹر پرناروے اور آئس لینڈ کے لئے اسرائیل کے سفیر Avi Nir-Feldklein نےایک پوسٹ ری ٹویٹ کی ہے۔جس میں ایک ویڈیو شئیر کرنے کے ساتھ کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران لبنان سے شمالی اسرائیل پر 34 راکٹ فائر کیے گئے جس سے معصوم جانوں کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ اسرائیلی حکومت تشدد کی کارروائیوں سے اپنے شہریوں کے دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی۔
مزید عالمی ردعمل:
جرمنی نے دونوں فریقوں پر زور دیا کہ "صورتحال کو پرسکون کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں"۔ عرب لیگ نےحملوں کی مذمت کی اور ایک ہنگامی اجلاس بلایا۔
مسجد کا انتظام کرنے والے ملک ا ردن نے بھی اس "دھاوے" کی مذمت کرتے ہوئے،اسرائیلی فورسز سے فوری طور پر کمپاؤنڈ چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔
متحدہ عرب امارات اور مراکش نے بھی، جنہوں نے 2020 میں اسرائیل کے ساتھ امریکی ثالثی کے معاہدے کے تحت تعلقات قائم کیے تھے، اسرائیلی پولیس کی کارروائی کی شدید مذمت کی۔
متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کے ایک بیان نے ان تمام طریقوں کو مسترد کر دیا ہ جن سے "تشدد میں مزید اضافے کا خطرہ" ہے۔ اس نے ان نمازیوں پر بھی تنقید کی جنہوں نے خود کو محصور کر لیا تھا۔
رباط کی وزارت خارجہ نے "خطے میں امن کے امکانات کو نقصان پہنچانے والے اقدامات اور خلاف ورزیوں سے بچنے کی ضرورت" پر زور دیا۔
خلیجی ریاست قطرنے، جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی طرز عمل کے "خطے میں سلامتی اور استحکام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، اور اگر بین الاقوامی برادری نےعجلت سے کام نہیں لیا تو امن کےعمل کو بحال کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ "
فلسطینی ہلال احمر نے بتایا ہے کہ اس نے 37 افراد کو طبی امداد فراہم کی ہے۔
دسمبر میں وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اسرائیل فلسطینی تنازع شدت اختیار کر گیا ہے، یہ اتحاد انتہائی دائیں بازو اور الٹرا آرتھوڈوکس یہودی جماعتوں پر مشتمل ہے۔
دونوں فریقوں کے سرکاری ذرائع پر مبنی اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق، اس سال اب تک، تنازعہ میں کم از کم 91 فلسطینی، 15 اسرائیلی اور ایک یوکرینی ہلاک ہو ئے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس اوراے ایف سے لیا گیا۔)