پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے آخری ضلعے راجن پور میں ڈاکوؤں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کا آپریشن بدھ کو اٹھارہویں روز بھی جاری ہے۔ پنجاب پولیس آپریشن کے دوران ابتدائی کامیابی کے دعوے بھی کر رہی ہے۔
کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف پولیس کی کارروائیاں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہیں۔ اس سے قبل بھی پولیس سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں کی جانب سےماضی میں وقتاً فوقتاً آپریشنز کیے جاتے رہے ہیں جن میں ڈاکوؤں کو ہلاک اور گرفتار کرنے کے دعوے بھی کیے گئے۔
تاہم راجن پور میں پولیس کے حالیہ آپریشن کے بعد سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آیا وہاں ایسے کیا حالات پیدا ہوگئے کہ فورسز کو دوبارہ آپریشن کرنا پڑا؟ کیا پہلے کیے جانے والے اقدامات ناکافی تھے یا جرائم پیشہ افراد کو بااثر شخصیات کی مبینہ پشت پناہی حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ دوبارہ یہاں آکر آباد ہو جاتے ہیں؟
پنجاب پولیس ان دنوں کچے کے جس علاقے میں آپریشن میں مصروف ہے وہ جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور اور ضلع رحیم یار خان میں واقع ہے۔
واضح رہے کہ دریائے سندھ کے دونوں اطراف کا علاقہ کچے کا علاقہ کہلاتا ہے۔یہاں وسیع زرعی زمینیں اور گھنے جنگلات ہیں ۔ عام حالات میں بھی پولیس کےلیے کچے کے کچھ علاقے 'نوگوایریاز' بن جاتے ہیں جہاں پولیس کےلیے کارروائی کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔
راجن پور اور رحیم یار خان کے کچے کے علاقے کے گردونواح میں موجود زرعی زمینوں کے مالک مختلف خاندان ہیں، کچھ کی ذاتی زمینیں ہیں اور کچھ نے سرکار سے کاشت کاری کےلیے زمینیں حاصل کر رکھی ہیں۔
کچے کا علاقہ تین صوبوں کا سرحدی علاقہ بھی ہے یعنی صوبہ پنجاب کا آخری ضلع راجن پور ہے جس کے ساتھ ہی صوبہ سندھ کا ضلع کشمور شروع ہو جاتا ہے۔ راجن پور کے مغرب میں کوہِ سلیمان ہے جس کے آگے بلوچستان کا ضلع ڈیرہ بگٹی شروع ہو جاتا ہے ، یوں اس علاقے کو ساحلی پٹی بھی کہتے ہیں۔
اپنی مشترک جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے یہاں تینوں صوبوں کی روایات موجود ہیں۔ قبائلی سسٹم یہاں عرصے سے رائج ہے اور قبیلے کا سردار ہی بیشتر معاملات میں سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے ۔ سردار کے خلاف بات کرنا معیوب ہی نہیں بلکہ گناہ سے بھی زیادہ سمجھا جاتا ہے۔
یوں تو راجن پور ، رحیم یار خان اور گردونواح میں متعدد قبائل موجود ہیں لیکن حالیہ دو عشروں میں راجن پور کا مزاری قبیلہ تمام قبائل کا سردار قبیلہ کہلاتا ہے اور لوگ فخریہ طور پر کہتے ہیں کہ وہ مزاری ہیں ۔ اس کی دیگر وجوہات میں سابق نگراں وزیرِ اعظم میر بلخ شیر مزاری ، ڈپٹی اسپیکر شوکت حسین مزاری جیسی قد آور سیاسی شخصیات بھی ہیں۔
مزاری قبیلے کے ذیلی متعدد بڑے قبائل ہیں جن میں لاکھانی ، بالاچانی ، سرگانی ، سکھانی ، گورچانی اور لاٹھانی شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری کا تعلق مزاری قبیلے کے ذیلی قبیلہ بالاچانی سے ہے جو کہ یہاں کے بڑے قبائل میں شمار ہوتا ہے۔
پولیس کا آٹھ گینگز کے خلاف آپریشن
پنجاب پولیس کا آٹھ مختلف گینگز کے خلاف کچے کے علاقے میں آپریشن جاری ہے۔ ان گینگز میں لاٹھانی گینگ ، لنڈ گینگ، سکھانی گینگ اور دولانی گینگ سرِفہرست ہیں۔
ان گروہوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی آپس میں بھی چپقلش چلتی رہتی ہے اور یہ ایک دوسرے پر بھی حملے کرتے رہتے ہیں لیکن اگر حکومت کی طرف سے ان کے خلاف آپریشن شروع ہو جائے تو یہ آپس میں مل کر پولیس سمیت سیکیورٹی فورسز کامقابلہ کرتے ہیں۔
پولیس کے حالیہ آپریشن میں بھی مذکورہ گینگز متحد ہو کر لڑ رہے ہیں۔
راجن پور کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او)محمد ناصر سیال نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکوؤں کے خفیہ ٹھکانوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں جاری ہیں اور چک کپڑا اور خیر پور بمبلی میں دولانی اور لنڈ گینگز کی کمین گاہیں تباہ کرکے خفیہ ٹھکانے مسمار کر دیے ہیں۔
ان کے بقول، دولانی گینگ اور لنڈ گینگ سنگین وارداتوں میں ملوث ہے۔
ڈی پی او راجن پور کے مطابق کچے کے علاقوں میں پولیس دستوں کی پیش قدمی جاری ہے اور پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کےلیے چیک پوسٹس قائم کردی گئی ہیں۔
ناصر سیال نے بتایا کہ کچے کے علاقے کچہ جمال ، کچہ کراچی ، کچہ روجھان ، بنگلہ اچھا ، کچہ ماچکہ ، کچی عمرانی کے علاقوں میں پولیس آپریشن ہو رہا ہے جس میں 11 ہزار اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ آپریشن کے دوران چار ڈاکو ہلاک اور 16 ملزمان گرفتار کیے جاچکے ہیں ۔
ان کے بقول، کچے کے کلیئر کروائے گئے علاقوں سے ڈاکو سندھ فرار ہونے کی کوشش کررہے ہیں جب کہ پولیس نے سندھ جانے والے تمام راستوں اور گزرگاہوں کو سیل کردیا ہے۔
لاٹھانی گینگ کے خلاف کارروائی غلط ہے: شبیر لاٹھانی
کچے کے علاقے میں جن گروہوں کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے ان میں سے ایک لاٹھانی گینگ بھی ہے۔ اس گینگ کے سربراہ شبیر لاکھانی سوشل میڈیا پر واٹس ایپ کے ذریعے مقامی میڈیا نمائندوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔
شبیر لاکھانی نے گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کے گروہ کا تعلق کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں اگر ان کے کچھ مطالبات مان لیے جائیں، ان میں سرکار کی مدعیت میں قائم ناجائز مقدمات کو ختم کرنا سرفہرست ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب 2016 میں چھوٹو گینگ کے خلاف کارروائی کی گئی تھی تو وہ صوبہ سندھ میں تھے لیکن ان کے اور ان کے بھائی کے خلاف ایک پولیس اہلکار کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ مقدمات قبائل کے باہمی جھگڑوں سے متعلق ہیں جوکہ ہم پنچایتی طور پر نمٹا سکتے ہیں اور اگر دیت بھی ادا کرنا پڑے تو پنچایت کا فیصلہ قبول کریں گے۔
مطالبات میں کچے کے علاقے میں سڑکیں بنانا ، اسپتال اور اسکول بنانا اور مقامی لوگوں کو روزگار دینا بھی شامل ہے تاکہ یہاں کے لوگ بھی زندگی کی سہولیات سے مستفید ہوسکیں۔
جزیرہ نما کچہ جمال، ڈاکوؤں کا مرکز
کچے کے جس علاقے میں آپریشن ہورہا ہے وہ دریائے سندھ کا اندرونی حصہ ہے جو کہ ایک جزیرے کی مانند ہے اسے کچہ جمال کہتے ہیں اور اس کی لمبائی 10 سے 11 کلو میٹر اور چوڑائی دو سے ڈھائی کلو میٹر ہے۔
کچہ جمال کے چاروں اطراف دریا بہتا ہے ، اس کے علاوہ کچہ مورو اور کچہ کراچی کے علاقے بھی ہیں جو کہ جزیرے کی مانند ہیں۔ تمام گینگز کچے کے ان تینوں علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں۔
ماضی میں جب بھی یہاں آپریشن ہوتا تھا تو جرائم پیشہ لوگ دریا کے راستے سے صوبہ سندھ منتقل ہو جاتے تھے اور حالات موافق ہونے پر دوبارہ یہاں واپس آ جاتے تھے۔
اب حالیہ پولیس آپریشن کے دوران جو حکمتِ عملی تیار کی گئی ہے اس میں دریائے سندھ کے اندر کشتی پر پولیس پیٹرولنگ کرنا بھی شامل ہے۔ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کی پولیس نے دو اطراف سے کچے کے علاقے کو گھیر رکھا ہے۔ تیسرا راستہ دریا کا ہے جہاں آپریشن شروع ہوتے ہی کشتی پر پیٹرولنگ کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا تاکہ ملزمان یہاں سے فرار نہ ہونے پائیں۔
کیا ڈاکوؤں کو کچھ سرداروں کی آشیرباد حاصل ہے؟
جب کچے کے ڈاکوؤں کو پشت پناہی سے متعلق راجن پور کے صحافیوں سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو کوئی کھل کر اس موضوع پر بات کرنے کو تیار نہ تھا۔ تاہم یہ بات سامنے آئی کہ یہ علاقہ این اے 195 رکن قومی اسمبلی سردار ریاض محمود خان مزاری کا حلقہ انتخاب ہے۔
اسمبلی فلور پر وہ کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے بارے میں آواز اٹھاتے رہتے ہیں، سردار ریاض محمود خان مزاری ، سابق نگران وزیراعظم میر بلخ شیر خان مزاری کے بیٹے ہیں۔
چوں کہ یہ قبائلی علاقہ ہے اور ہر قبیلے کا اپنا سردار ہے اس لیے کچھ سرداروں کے بارے میں یہ اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں کہ وہ مبینہ طور پر جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ اس سرپرستی کے عوض ان سرداروں کو مبینہ طور پر ان کا حصہ ملنے کی شکایات بھی عام ہیںَ اس کے علاوہ گینگز کی طرف سے سرداروں کے پاس بھاری رقم بھی رکھوائی جاتی ہے تاکہ اگر کل کو گروہ کے خلاف کوئی کارروائی ہو تو وہ اس رقم کو خرچ کرکے انہیں چھڑا سکیں۔
مقامی سردار جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی سے ہمیشہ انکار کرتے ہیں اور ان کا مؤقف رہا ہے کہ یہ ان کے مخالف قبیلے کا الزام ہے۔ تاہم کچھ قبائل کے سرداروں کی اس بارے میں عمومی شہرت سے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ راجن پور کے عام شہری بھی واقف ہیں لیکن وہ اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
جرائم پیشہ گروہ کس طرح وجود میں آئے ؟
راجن پور میں جرائم کے گروہ اچانک سے وجود میں نہیں آئے بلکہ اس کے پیچھے کئی برسوں کے تنازعات ہیں جوکہ بڑھتے بڑھتے نسلوں کو ختم کرنے کی دشمنیوں تک پہنچ گئے۔
یہ تنازعات فصلوں کو پانی لگانے اور فصلوں سے جانور گزرنے جیسے معمولی معاملات سے شروع ہوئے اور پھر قتل و غارت تک پہنچ گئے۔
قبائلی سرداروں نے بھی صلح کروانے کے بجائے لڑائی جھگڑے بڑھانے کو ہی فوقیت دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن کے خلاف قتل ، اقدامِ قتل یا کوئی اور مقدمہ درج ہوتا وہ گرفتار ہونے کی بجائے اشتہاری ہو جاتا اور گاؤں چھوڑ کر کچے کے علاقے میں مفروری کی زندگی گزارتا جہاں اس جیسے کئی اور جرائم پیشہ اور اشتہاری ملزمان موجود ہوتے تھے۔
ان لوگوں نے گزر بسر کے لیے ڈکیتیاں کرنا شروع کردیں اور ان کی مجرمانہ کاروائیاں بڑھتے بڑھتے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں اور پولیس اہلکاروں کے قتل تک جا پہنچیں۔
ماہرین کے مطابق کچے کے علاقے میں اسلحے کی فراوانی اور کمین گاہوں میں اچھی خوراک کی دستیابی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں موجود افراد کے پاس مالی وسائل کی کوئی کمی نہیں اور وہ جس بھی ناجائز ذرائع سے پیسہ کما رہے ہیں ، انہیں رقم مسلسل مل رہی ہے۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ راجن پور ، رحیم یار خان ، کشمور اور صادق آباد کے اضلاع میں ڈکیتی ، اغوا برائے تاوان اور اجرتی قتل کی وارداتوں سے یہ لوگ رقوم حاصل کرتے ہیں۔
گندم کی کٹائی کے موقع پر ہی آپریشن کیوں؟
راجن پور میں اب یہ بات کھلے عام کہی جا رہی ہے کہ پولیس فورس صرف گندم کی کٹائی کے موقع پر ہی کیوں آپریشن کرتی ہے اس سے پہلے یا بعد میں کیوں نہیں آپریشن کیا جاتا۔
یاد رہے کہ جنوبی پنجاب میں مارچ کے تیسرے ہفتے سے گندم کی کٹائی شروع ہے اور گندم کا بڑا حصہ جنوبی پنجاب کے اضلاع سے ملک بھر کو مہیا کیا جاتا ہے۔
لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس آپریشن کے نام پر گندم بھی لوٹ کر لے جاتی ہے ۔ اس بارے میں پولیس حکام کا مؤقف ہے کہ اپریل میں آپریشن کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں دریائے سندھ میں پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے اور جرائم پیشہ افراد کے ٹھکانوں تک پولیس فورس کی رسائی آسان ہو جاتی ہے۔
چھوٹو گینگ کے خاتمے کے بعد نئے گینگز وجود میں آگئے
اپریل 2016 میں کچے کے علاقے میں چھوٹو گینگ کا طوطی بولتا تھا جس نے 22 پولیس اہلکاروں کو اغوا کرلیا تھا۔
غلام رسول عرف چھوٹو نے 2005 میں انڈس ہائی وے پر 12 چینی انجینئروں کو اغوا کیا جس پر اس کا نام ملکی سطح پر سامنے آیا۔
یہ چھوٹو گینگ بھی کچا جمال کے علاقے میں اپنی کمین گاہیں بنائے ہوئے تھا اور یہاں آپریشن ضربِ آہن کے لیے پولیس کے ساتھ ساتھ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ اور رینجرز نے بھی حصہ لیا ۔ تاہم جب پاک فوج نے آپریشن کی کمان سنبھالی تو چھوٹو گینگ نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے۔
اس گروہ کے خاتمے کے بعد اگرچہ ڈاکوؤں کی کمین گاہوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن جلد ہی نئے ناموں سے نئے گینگز سامنے آگئے جنہوں نے اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔
فوج داری قانون کے ماہر شاہد اسلام ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب میں بار بار گروہوں کا بننا اور قانون کو ہاتھ میں لینا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ملزمان کو گرفتار کرنا کافی نہیں بلکہ ان کے سرپرستوں پر ہاتھ ڈالنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ کچے کے علاقے کے 25، 30 برس کے حالات دیکھے جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجرم پالنا یہاں کے سرداروں کی مجبوری بن چکا ہے۔ سرداری کو قائم رکھنے اور ناجائز دولت کمانے کے لیے اشتہاریوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔
شاہد اسلام ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ لا اینڈ آرڈر کے ساتھ ساتھ انتظامی مسئلہ بھی ہے اور پنجاب و سندھ کی صوبائی حکومتیں اور علاقے کے سیاست دان اس مسئلے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔
اُن کے بقول سب اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر کوئی حل نکالیں تو ہی کچے کے علاقے میں امن قائم ہوسکے گا۔