رسائی کے لنکس

پاکستان میں بننے والی کنگز پارٹی؛ 'حکومت کسی کی ہو اقتدار میں الیکٹیبلز ہی ہوتے ہیں'


پاکستان میں ایک بار پھر ’کنگز پارٹی‘ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ نو مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)سے نکلنے والے رہنماؤں کی تعداد کو اب بعض ٹی وی چینلز پر باقاعدہ اسکور بورڈ کی صورت میں دکھایا جا رہا ہے جس میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔

پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کے بعد سابق رہنما جہانگیر ترین سب سے پہلے متحرک ہوئے اور اب حال ہی میں پی ٹی آئی چھوڑنے والے بعض رہنماؤں نے فواد چوہدری کی قیادت میں اپنی سابق جماعت سے علیحدہ ہونے والوں سے رابطے شروع کردیے ہیں۔

بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے 2013 اور 2018 کے انتخابات سے قبل اور بعد میں دیگر سیاسی جماعتوں کو چھوڑنے والے لیڈر اور الیکٹیبلز کی تحریکِ انصاف میں شمولیت کو بھی پس پردہ قوتوں کی کرشمہ سازی قرار دیتے ہیں۔

پی ٹی آئی ماضی میں اس تاثر کو مسترد کر تی تھی لیکن موجودہ حالات میں اپنی جماعت چھوڑنے والوں کے کسی’کنگ پارٹی‘ میں جمع ہونے کی بات اب عمران خان بھی کررہے ہیں اور ایک حالیہ بیان میں انہوں نے اس کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔

تاہم پاکستان کی سیاست میں قومی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں انتخابی اثر و رسوخ رکھنے والے سیاست دانوں کا کسی سیاسی پلیٹ فورم پر جمع ہونے کا یہ سلسلہ نیا نہیں۔

وہ بھی مئی کا مہینہ تھا

اتفاق یہ ہے کہ 21 سال قبل مئی کا مہینہ تھا جب پاکستان میں ایک نئی ’کنگز پارٹی‘ کے میدان میں اترنے کی خبر گرم تھی۔ پنجاب کے اس وقت کے سیکریٹری داخلہ اعجاز شاہ اور آئی جی آصف حیات گورنر پنجاب خالد مقبول کے طیارے پر پنجاب کے بیس اضلاع کا طوفانی دورہ کرکے مقامی انتظامیہ کو بتا رہے تھے کہ کون سی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی 'چنیدہ' اور 'پسندیدہ' ہے۔

سال 2002 میں منظم ہونے والی یہ سیاسی قوت پاکستان مسلم لیگ (ق) تھی جسے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 کو اقتدار پر قبضے کے بعد اپنی حکومت کو سیاسی جواز فراہم کرنے کے لیے منظم کررہے تھے۔

جنرل پرویز مشرف نے 2006 میں شائع ہونے والی اپنی خود نوشت ’ان دی لائن آف فائر‘ میں لکھا تھا:"مجھے اپنے سیاسی ایجنڈے پر عمل کے لیے ایک سیاسی جماعت کی ضرورت تھی۔ میرے پاس ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا آپشن بھی تھا لیکن میں نے ہمارے ملک کو آزادی دینے والے قائدِ اعظم کی جماعت مسلم لیگ کے احیا کا فیصلہ کیا اور بطور فوجی اس میں میرے جذبات کا بھی عمل دخل تھا۔"

پرویز مشرف لکھتے ہیں کہ ان کے پرنسپل سیکریٹری اور قابلِ اعتماد دوست طارق عزیز نے 2002 کے عام انتخابات سےپہلے پاکستان مسلم لیگ( ن )کو پاکستان مسلم لیگ( ق )میں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔ طارق عزیز نےہی بعدمیں چوہدری شجاعت اور ان کے چچازاد بھائی چوہدری پرویز الہی کو جنرل مشرف سے ملوایا۔

مسلم لیگ (ق) دراصل مسلم لیگ (نواز) کے ان رہنماؤں پر مشتمل تھی جنھوں نے 12 اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت کے بعد جلاوطنی اختیار کرنے والے اپنے قائد نواز شریف سے راہیں جدا کرلی تھیں۔

اگرچہ مسلم لیگ( ق) کو باقاعدہ طور پر 20 اگست 2002 کو لانچ کیا گیا لیکن نون لیگ سے علیحدہ ہونے والے رہنما پہلے ہی ایک گروپ کی صورت میں جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔

سال 2002 میں پاکستانی جریدے ’نیوز لائن‘ میں شائع ہونے والی صحافی حسن اکبر کی رپورٹ کے مطابق ان رہنماؤں میں پنچاب کے سابق گورنر میاں اظہر، خورشید قصوری، عابدہ حسین اور فخر امام سمیت دیگر رہنما شامل تھے اور اس چھوٹے سے گروپ کو 2002 کے عام انتخابات سے قبل 2001 میں مشرف حکومت کے تحت ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حکومتی مشینری کے تحت مدد بھی فراہم کی گئی تھی۔

حسن اکبر کے مطابق انتظامیہ ہاتھ میں نیب کی چھڑی پکڑےمسلم لیگ( ن) کے لیڈرز اور سابق ارکان اسمبلی پر مسلم لیگ ق میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی۔

ان کے مطابق پرویزمشرف کے پرنسپل سیکریٹری نے خاص طور پر پنجاب کے دیہی حلقوں میں مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو ق لیگ میں شامل کرنے کے آپریشن کی نگرانی کی کیوں کہ یہی وہ علاقے تھے جہاں سے صوبے کے نوے فی صد نمائندے منتخب ہوکر آتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تاریخ پر مرتب کی گئی کتاب ’پاکستان پولیٹیکل پارٹیز سروائیونگ بٹوین ڈکٹیٹرشپ اینڈ ڈیموکریسی‘ میں شامل اپنے مضمون میں ڈاکٹر ثمین اے محسن علی نے لکھا کہ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہیٰ کی بنائی گئی پارٹی میں سیاسی اشرافیہ نے دل چسپی ظاہر نہیں کی تھی کیوں کہ انہیں یقین نہیں تھا کہ یہ جماعت اپنے بل بوتے پر الیکشن میں کامیاب ہوسکے گی۔

ان کے مطابق یہی وجہ تھی چوہدری برادران نے جنرل مشرف کی ’کنگز پارٹی‘ بننا قبول کیا اور پھر مشرف کی پولیٹیکل انجینئرنگ کی وجہ سے اس نے انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے مرکز ، پنجاب اور سندھ میں حکومت بنائی۔

پہلی کنگز پارٹی?

پاکستان کے ابتدائی دور کی کئی سیاسی شخصیات کے انٹرویوز کرنے والے صحافی اور مصنف منیر احمد منیر کا کہنا ہے کہ اقتدار کے حصول کے لیے ہونے والی محلاتی سازشوں کے نتیجے میں جب لیاقت علی خان کا قتل ہوگیا تو اس کے بعد بیوروکریسی اور فوج مل کراقتدار کے مستقل شراکت دار بن گئے۔

ان کے مطابق اس وقت تک مسلم لیگ ہی پاپولر جماعت تھی اس لیے کسی کنگز پارٹی کا تصور نہیں تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے غلام محمد اور پھر اسکندر مرزا، بیوروکریسی اور فوج کے اس گٹھ جوڑ کے نمائندے بن کر سامنے آئے۔ ان میں سے پہلی بار اسکندر مرزا ہی نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسمبلی میں جوڑ توڑ کی طاقت اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے 'ری پبلکن پارٹی' بنائی جو ملک کی پہلی کنگز پارٹی تھی۔

منیر احمد منیر کہتے ہیں کہ یہ کوئی باقاعدہ سیاسی جماعت نہیں تھی۔ اس کا وجود صرف اس وقت کی صوبائی اور دستور ساز اسمبلیوں کے اندر ہی تھا۔

ری پبلکن پارٹی دراصل ون یونٹ کی اسکیم کو بچانے کے لیے ایک سیاسی بندوبست تھا۔ 1955 میں مشرقی و مغربی پاکستان کو دو صوبے قرار دے دیا گیا تھا۔ اس سے قبل 1954 میں مسلم لیگ مشرقی حصے میں اپنا اثر کھو بیٹھی تھی۔ اسے وہاں جگتو فرنٹ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مغربی پاکستان میں مسلم لیگ دھڑے بندیوں اور آئین سازی پر موجود اختلافات کے باوجود برقرار تھی لیکن اس صوبے میں ڈاکٹر خان صاحب وزیرِ اعلیٰ بن گئے تھے جو صوبۂ سرحد میں کانگریسی حکومت کے وزیراعلیٰ رہے تھے جو قیام پاکستان کے بعد معزول کردی گئی تھی۔

پاکستان کے ابتدئی برسوں کی سیاسی تاریخ کے بارے میں اپنی کتاب 'شب گزیدہ سحر' میں ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ کی قیادت ڈاکٹر خان صاحب کی سخت مخالف تھی لیکن ان کے گورنر جنرل اسکندر مرزا سے دیرینہ تعلقات تھے اور ان کا بطور وزیرِ اعلیٰ تقرر، اسکندر مرزا اور وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی کی پشت پناہی کا نتیجہ تھا۔

مشکل یہ درپیش تھی کہ مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر ہوا تھا لیکن منتخب ارکان کسی نہ کسی پارٹی سے وابستگی رکھ سکتے تھے۔

ڈاکیومینٹری | پاکستان: آزادی سے مارشل لا تک
please wait

No media source currently available

0:00 0:52:50 0:00

ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں کہ جنوری 1956 میں مسلم لیگ کی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں پارٹی کی صدارت اور وزارتِ عظمی کے عہدوں کو الگ کردیا گیا۔ اس کے بعد چوہدری محمد علی مسلم لیگ کی صدارت سے علیحدہ ہوگئے اور سردار عبدالرب نشتر پارٹی کے صدر بن گئے۔

اس کے علاوہ کونسل نے مغربی پاکستان اسمبلی میں اپنے ارکان کو پارلیمانی پارٹی بنانے کی ہدایت بھی کردی۔ اسکندر مرزا مسلم لیگ کی صدارت سردار عبدالرب نشتر کو ملنے پر نا خوش تھے اور پارلیمانی پارٹی بنانے کے فیصلے سے مغربی پاکستان میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کے لیے خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔

اس خطرے کے پیش نظر ڈاکٹر خان صاحب نے اسمبلی میں اپنی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا اور اس طرح 1956 میں 'ری پبلکن پارٹی' وجود میں آئی۔

اسکندر مرزا نے اپنی خود نوشت میں اس الزام کی تردید کی ہے کہ ڈاکٹر خان صاحب نے ری پبلکن پارٹی ان کے ایما پر بنائی تھی لیکن سابق وزیرِ اعظم فیروز خان نون کی یادداشتوں اور اس دور کی دیگر شخصیات کے بیانات سے پتا چلتا ہے کہ اس پارٹی کی تشکیل کے لیے ڈاکٹر صاحب کو اسکندر مرزا کی تائید حاصل تھی۔

سال 1956 میں ملک میں آئین نافذ ہوگیا جس کے بعد اسکندر مراز گورنر جنرل سے صدر بن گئے اور سیاسی جوڑ توڑ میں ری پبلکن پارٹی کا کردار برقرار رہا۔

سابق بیورو کریٹ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ’شہاب نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ آئین نافذ ہونے کے بعد تین سال کے عرصے میں چار مرکزی حکومتیں اقتدار میں آئیں جن میں گیارہ سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا۔ ری پبلکن پارٹی ان سب میں شامل تھی۔ اس صورت حال کے رونما ہونے میں صدر اسکندر مرزا کے جوڑ توڑ کا بڑا عمل دخل تھا۔

ایوب خان کی کنونشن لیگ

ملک میں 1956 کا آئین نافذ ہونے کے بعد 1957 میں انتخابات ہونے تھے جس کے بعد اسکندر مرزا کو یا تو صدارت چھوڑنا پڑتی یا دوبارہ انتخاب لڑنا پڑتا۔ اس لیے انہوں نے مختلف حربوں سے الیکشن 1959 تک ملتوی کردیے تھے۔ لیکن 1958 کا سال شروع ہوتے ہی ان کی بے چینی بڑھنے لگی۔

انہوں نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے پہلے جنرل ایوب خان کو مدت ملازمت میں توسیع دی۔ جنرل ایوب خان اقتدار کے کھیل میں اسکندر مرزا کے ساتھی اور مدد گار رہے تھے۔

قدرت اللہ شہاب کے مطابق اسکندر مرزا نے الیکشن ملتوی کرنے کے آخری حربے کے طور پر سات اکتوبر 1958 کو آئین معطل کرکے مارشل لا نافذ کردیا اور ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنادیا۔ اس طرح اس شاخ کوخود ہی کاٹ دیاجس پر ان کا آشیانہ تھا ۔

جنرل ایوب خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کے بیس روز کے اندر اقتدار پر مکمل قبضہ کرلیا اور اسکندر مرزا کو بے خل کرکے ملک بدر کردیا۔ مارشل لاکے نفاذ کے ساتھ ہی ملک میں سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد ہوگئی۔

جنرل ایوب خان نے 1961 میں آئین سازی کا اعلان کیا اور انہیں اپنی حکومت اور اقدامات کے سیاسی جواز کی ضرورت بھی محسوس ہورہی تھی۔ 1962 میں آئین کی تشکیل کے بعد سیاسی جماعتوں سے پابندی ہٹا دی گئی اور ان کی سرگرمیاں بحال ہوگئیں۔

لارنس زائرنگ اپنی کتاب ’ایوب کا زمانہ‘ میں لکھتے ہیں کہ صدر ایوب کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ وہ حالات و واقعات سے مجبور ہیں اور اسی لیے انہیں مجبوراً سیاسی جماعتوں کی واپسی کو ماننا پڑا۔

وہ لکھتے ہیں کہ 31 جولائی 1962 کو صدر نے روزنامہ ’ڈان‘ میں ایک مضمون لکھا کہ وہ خود سیاسی جماعت بنا کر اسے چلانے کی کوشش کریں گے تو لوگ اسے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے کیوں کہ اسے ’شاہی جماعت‘ یعنی کنگز پارٹی تصور کیا جائے گا۔ البتہ انہوں نے اپنے مداحوں پر زور دیا کہ وہ ایک ایسی جماعت بنائیں جو اسمبلیوں میں حکومت کی نمائندگی کرسکے۔

زائرنگ لکھتے ہیں کہ انہوں نے حکومتی جماعت کے رہنماؤں کو یہ بھی کہا کہ وہ غیر فعال ہوجانے والی مسلم لیگ کا نام اختیار کریں۔ اس غرض سے تمام حکومتی وسائل حکومت نواز سیاست دانوں کو دے دیے گئے جس سے ایک نئی سیاسی جماعت نے جنم لیا اور چار ستمبر 1962 کو 'مسلم لیگ کنونشن' حکومتی جماعت بن کر سامنے آئی۔

یہ مسلم لیگ کے وزرا، اسمبلی کے ارکان کی اکثریت اور حکومت کے دوسرے حمایتیوں پر مشتمل تھی اور تقریباً سبھی سیاست میں نئے تھے۔ اس کے مقابلے میں منجھے ہوئے مسلم لیگی جو صدر ایوب کے سیاست پر پابندی کے قانون ایبڈو سے بچ گئے تھے انہوں نے کونسل مسلم لیگ بنالی تھی۔

مستقل ’کنگز پارٹی‘

سیاسی تاریخ پر مشتمل کتاب’پاکستان پولیٹیکل پارٹیز ‘ میں سعید شفقت لکھتے ہیں کہ ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات 1970 میں ہوئے اور اس وقت تک مسلم لیگ کے دھڑوں میں چار رجحانات واضح ہوچکے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک گروہ زیادہ بااختیار مرکز کا حامی تھا۔اس میں زمین دار، شہری پروفیشنلز وکلا اور تاجر وغیرہ شامل تھے۔ دوسری قسم ان مسلم لیگیوں کی تھی جو کسی نہ کسی طرح اقتدار میں رہنا چاہتے تھے۔ تیسرے گروپ میں وہ لوگ تھے جو خود کو مذہبی جماعتوں سے قریب سمجھتے تھے اور چوتھا طبقہ وہ تھا جو فوج کی سرپرستی سے سیاست کرنے کا حامی تھا۔

ان کے نزدیک ان رجحانات کی وجہ سے مسلم لیگ ہر دور میں ’کنگز پارٹی‘ کے طور پر دستیاب رہی۔

منیر احمد منیر کہتے ہیں کہہ اقتدار مضبوط کرنے کے لیےہمیشہ مسلم لیگ کا استعمال اس لیے کیا جاتا رہا کیونکہ اس نام کے ساتھ ملک کے قیام کی جد و جہد جڑی تھی اور ایک بڑا طبقہ تھا جو اس نام پر اسے ووٹ دیتا تھا۔ اسی لیے جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیر پگاڑا کی قیادت میں مسلم لیگ ایک بار پھر منظم ہونے لگی تو بھٹو صاحب کو اس سے تحفظات لاحق ہوگئے۔

قائد اعظم یونیورسٹی سے وابستہ ماہرِ سیاسیات عاصم سجاد اختر کا کہنا ہے کہ 1985 میں جنرل ضیا الحق کے دورِ آمریت میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات نے سیاست کو کسی نظریے یا فکر کے بجائے حلقے کی سطح کے مسائل سے جوڑ دیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حلقے کی سیاست نے ایسے مقامی سیاست دانوں کو مضبوط کیا جنہیں اب ’الیکٹیبلز‘ کہا جاتا ہے۔ جن کی وابستگی اقتدار کے ساتھ ہوتی ہے کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان کی سب سے بڑی ’کنگز پارٹی‘ یہی الیکٹیبلز ہیں۔ یہ الیکٹیبلز اس وقت بھی سیاست میں رہے جب 1988 میں ضیاء الحق نے اپنی ہی بنائی گئی محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔

سعید شفقت لکھتے ہیں کہ فوجی حکومت نے پنجاب میں نواز شریف کی حکومت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور آگے چل کر یہی نواز شریف ،محمد خان جونیجو کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔

وہ لکھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی ملکی سیاست میں واپسی اور جنرل ضیاالحق کی حادثے میں موت کے بعد 1988 کے انتخابات میں فوج نے اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی) بنایا تو نواز شریف ہی ان کا انتخاب ٹھہرے۔

فوج کی سیاسی مداخلت سے متعلق سپریم کورٹ میں چلنے والے اصغر خان کیس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے آئی جے آئی کی تشکیل میں فوج اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے کردار اکا اعتراف کیاتھا۔

بعدازاں 1993 کے انتخاب سے قبل نواز شریف نے اپنے نام سے موسوم مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔

منیر احمد منیر کہتے ہیں کہ آئی جے آئی کے قیام کے بعد نواز شریف کنگز پارٹی کا حصہ رہے اور پھر 1990 کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مقتدر حلقوں سے مل کر ایک دوسرے کو اقتدار کی دوڑ سے باہر رکھنے میں مصروف رہے۔

ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا

لاہور یونیورسٹی آف مینجنٹ سائنسز (لمز) سے وابستہ سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم کے نزدیک 1971 سے 1977 تک ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت پاکستان میں سول سپرمیسی کا دور رہا باقی ادوار میں براہ راست یا پس پردہ اسٹیبلشمنٹ ہی اقتدار کا مرکز رہی۔

تاہم وہ اپنی کتاب ’پولیٹیکل کونفلکٹ ان پاکستان‘ میں ڈکٹیڑز کے دور میں بنائی گئی ’کنگ پارٹی‘ کا مجموعی دورِ اقتدار 16 برس بتاتے ہیں۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فوجی ڈکٹیٹرز کے دور میں بنائی گئی پارٹیوں ہی کو کنگز پارٹی شمار کرتے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید بھی اسی خیال کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا میڈیا کسی بھی لفظ یا اصطلاح کو لپکنے کی جلدی میں رہتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کنگز پارٹی ہمیشہ آمروں نے بنائی۔ اس وقت ملک میں شہباز شریف 12 جماعتی اتحاد اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کے وزیرِ اعظم ہیں۔ انہیں اس وقت کنگ پارٹی بنانے کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے۔

نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ اس مفروضے پر کیا جارہا ہے کہ سب فوج کررہی ہے جب کہ یہ دیکھنے کی بھی کی ضرورت ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونے والے اپنی مجبوریوں یا کمزوری، جس وجہ سے بھی پارٹی سے الگ ہورہے ہیں۔ وہ خود بھی کوئی سیاسی متبادل تلاش کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

سیاسی خلا

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں ’کنگز پارٹی‘ بننے والی سیاسی جماعتیں اپنے بنانے والوں سے نالاں ہوجاتی ہیں یا ان کے اختیار سے نکل جاتی ہیں۔

عاصم سجاد اختر کا کہنا ہے کہ آج جو شکایت پی ٹی آئی کو ہے ماضی میں وہی شکایت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بھی رہی تھی۔ اس وقت جب جہانگیر ترین متحرک تھے تو پی ٹی آئی اسے اپنی سیاسی برتری سمجھ رہی تھی اور آج صورتِ حال بدل گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ سوال ’پہلے انڈا یا مرغی‘ جیسا ہے کہ سیاسی جماعتیں اتنی مضبوط کیسےہوں کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے سہارے اور اس کے تیار کیے گئے سیاسی لیڈروں کی ضرورت نہ رہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو درپیش صورتِ حال سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ سیاست صرف سیاسی بیانیے کا نام نہیں بلکہ اس کے لیے منظم انداز میں سیاست کرنا بھی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں نظریاتی سیاست صرف بائیں بازو کی جماعتوں تک محدود ہے جو زیادہ سیاسی اثر نہیں رکھتیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں ٹھوس اصلاحات کے ایجنڈے پر سیاست نہیں کرتیں، جس میں دیہی و شہری لینڈ ریفارمز اور دولت کی یکساں تقسیم جیسے اقدامات شامل نہیں ہوتے، اس وقت تک سیاست میں کنگز پارٹیز کی گنجائش باقی رہے گی اور سیاست میں حقیقی سیاسی جماعت کا خلا باقی رہے گا۔

موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین یا حال ہی میں پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونے والے سیاست دان آئندہ کیا سیاسی کردار ادا کرسکیں گے؟ اس بارے میں نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ اس وقت جو سیاسی پلیئرز میدان میں اتررہے ہیں وہ کتنے مؤثر ثابت ہوں گے اس کا اندازہ الیکشن کے اعلان کے بعد ہی ہوگا کیوں جب الیکشن کا طبل بجتا ہے تو حالات یکسر بدل جاتے ہیں۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جمہوری اور آئینی بنیادوں پر تو الیکشن بروقت ہونے چاہیئیں لیکن فی الحال لگتا یہ ہے کہ خدانخواستہ پی ٹی آئی کی مکمل ٹوٹ پھوٹ تک الیکشن نہیں ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG