پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے کئی رہنماؤں کے پارٹی چھوڑ جانے کے بعد ملک میں سیاسی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین بھی سیاسی اُفق پر دوبارہ متحرک ہو گئے ہیں۔
پنجاب کے شہر لودھراں سے تعلق رکھنے والے ارب پتی بزنس مین جہانگیر ترین ماضی میں پی ٹی آئی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات کے بعد پنجاب میں حکومت سازی بھی جہانگیر ترین کی کوششوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی تھی اور اُنہیں عمران خان کا دستِ راست سمجھا جاتا تھا۔
جہانگیر ترین گروپ نے آئندہ چند روز میں نئے نام سے سیاسی جماعت کے قیام کا بھی اعلان کر دیا ہے جس میں پی ٹی آئی چھوڑنے والے افراد کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔
ترین گروپ نے پیر کو سابق پی ٹی آئی رہنما عبدالعلیم خان سے بھی ملاقات کی تھی۔ ترین گروپ کے اہم رُکن عون چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں سے بھی بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے ناراض رہنما ترین گروپ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ ملکی سیاست میں ترین گروپ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اِسی گروپ نے عمران خان کو وزاتِ عظمی تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اَب یہی گروپ ایک مرتبہ پھر سیاسی طور پر اپنے قد میں اضافہ کرنے کی کوشش میں ہے۔
'جہانگیر ترین لوگوں کو ساتھ بٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں'
تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین میں یہ خوبی ہے کہ وہ لوگوں کو لا سکتے ہیں، بٹھا سکتے ہیں، اُنہیں کھلا سکتے ہیں اور اُنہیں سیاسی طور پر چلا سکتے ہیٰں لیکن وہ بڑے سیاسی لیڈر نہیں ہیں۔ وہ ملک کی سطح پر سیاسی طور پر کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ وہ کوئی الگ جماعت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ البتہ وہ پی ٹی آئی کے اندر اِس وقت الیکٹیبلز کے ساتھ سب سے زیادہ رابطے میں ہیں۔
اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے گروپ میں الیکٹیبلز کی طاقت جہانگیر ترین کے پاس ہے جب کہ عبدالعلیم خان کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں ہے۔
سلمان غنی بتاتے ہیں کہ جب عمران خان وزیرِاعظم تھے تو اُنہوں نے جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کو نظرانداز کیا۔ ایک کو جیل بھی جانا پڑا جب کہ جہانگیر ترین نااہل قرار پائے۔
'پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کے لیے یہ نیا آشیانہ ہے'
تجزیہ کار اور کالم نویس افتحار احمد کہتے ہیں کہ نئے الیکشن سے قبل سیاسی صف بندیاں تو ہوتی ہیں۔ لہذٰا پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو نئے سیاسی آشیانے کی تو ضرورت ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افتحار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) بھی گزشتہ کئی روز سے پنجاب کی سیاست میں متحرک ہے۔
اُن کے بقول پنجاب کی سطح پر ترین گروپ متحرک ہے جن کے ساتھ اسحاق خاکوانی، عبدالعلیم خان اور سرائیکی بیلٹ کے لوگ شامل ہیں۔ جو ایک مضبوط دھڑا بنا سکتے ہیں۔
یاد رہے عمران خان کے وزارتِ عظمٰی کے دور میں جہانگیر خان کے خلاف چینی اسکینڈل میں تحقیقات شروع کی گئی تھیں جب کہ عبدالعلیم خان کو نیب کی جانب سے پراپرٹی کیس میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد سے دونوں کے عمران خان کے ساتھ سیاسی اختلافات بڑھ گئے تھے اور ترین گروپ سامنے آیا تھا۔
تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ جہانگیر ترین کتنے لوگوں کو اپنی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ اُن کے بقول الیکشن میں پنجاب میں ہی اصل میدان لگے گا اور دیکھنا یہ ہو گا کہ الیکٹیبلز کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہیں۔
تجزیہ کار سلمان غنی کے خیال میں جہانگیر ترین فیکٹر پاکستان کی آئندہ سیاست میں ایک بڑا کردار ضرور ادا کرے گا۔
واضح رہے پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر ہمیشہ بات ہوتی رہتی ہے۔ مبصرین کی رائے میں اسٹیبلشمںٹ ہمیشہ ہی سیاست میں متحرک رہی ہے جس کا اقرار سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ بھی کر چکے ہیں۔
خیال رہے پاکستان میں الگ سیاسی دھڑے بنانے کی روایت نئی نہیں ہے، ماضی میں پاکستان میں جونیجو لیگ، وٹو گروپ، پیپلز پارٹی شیر پاؤ گروپ، مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ن) فارورڈ بلاک، ایم کیو ایم حقیقی اور دیگر سیاسی دھڑے بن چکے ہیں۔