رسائی کے لنکس

چین کس حد تک امریکہ، بھارت تعلقات کو مضبوط کرنے کا باعث ہے؟


امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے اسٹیٹ ڈنر کے موقع پر لی گئی ایک تصویر ۔ فوٹو اے پی 22 جون 2023
امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے اسٹیٹ ڈنر کے موقع پر لی گئی ایک تصویر ۔ فوٹو اے پی 22 جون 2023

امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اس ہفتے وائٹ ہاؤس میں شان شوکت والی تقریبات کے ساتھ ملاقات اور بھارتی رہنما کا کانگریس سے خطاب جہاں دو ملکوں کے درمیان شراکت داری کی مضبوطی کا غماز ہے وہیں ماہرین کی نظر میں یہ دورہ واشنگٹن اور نئی دہلی کی تیزی سے ابھرتے ہوئے چین سے مسابقت کے معاملے پر مشترکہ سوچ کا ایک واضح اظہار بھی ہے۔

دورے کے دوران امریکہ اور بھارت نے دفاع اور ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبوں میں تعاون کے معاہدے کیے اور راہنماوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو اکیسویں صدی کی اہم ترین شراکت داری قرار دیا۔ صدر بائیڈن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ممالک جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور نوٹ کیا کہ امریکہ اور چین کے تعلقات امریکہ اور بھارت کے باہمی تعلقات کے مقابلے میں اس مقام پر نہ پہنچنے کی ایک بنیادی وجہ امریکہ اور بھارت کا جمہوری ملک ہونا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ کی حکمرانی کو ڈکٹیٹرشپ سے تشبیہ دی تھی۔

واشنگٹن میں امریکہ کے ایشیا ئی ممالک سے تعلقات اور پالیسی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اس دورے کے دوران امریکہ اور بھارت کے وسیع البنیاد تعلقات کے امکانات اور اقدامات پر توجہ کے باوجود چین ایک فیصلہ کن عنصر ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بیجنگ ے نمٹنے کی سوچ واشنگٹن اور نئی دہلی کے مشترکہ مفاد ات میں سے ایک اہم ترین محرک ہے۔

واشنگٹن کے اسٹمسن سینٹر تھنک ٹینک میں جنوبی ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر الزبیتھ تھریل کیلڈ کہتی ہیں کہ چین کے بارے میں تشویش نے امریکہ اور بھارت کے باہمی تعلقات کو مومینٹم یا تقویت دینے میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔

مودی کا دورہ: بھارت اور امریکہ میں سیمی کنڈکٹرز بنانے کا معاہدہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:06 0:00

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین کی وجہ سے دونوں فریقوں کو یہ ترغیب ملی کے وہ ایک دوسرے سے گفت و شنید کریں کہ اس چیلنج سے کیسے نمٹا جائے۔

"یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر چین ان تعلقات میں اتنا اہم عنصر نہ ہوتا تو امریکہ اور بھارت کے تعلقات اتنے آگے نہ بٖڑھ پاتے۔"

اس نقطے کی وضاحت کرتے ہوئے الزببتھ تھریل کلیڈ کہتی ہیں کہ چین کی امریکہ- بھارت تعلقات میں اہمیت کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ملکوں کے قریب آنے میں صرف یہی ایک وجہ ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بھارت کی اقتصادی اہمیت، ایک بڑی منڈی ہونا اور دونوں ملکوں کے لوگوں میں روابط کو بھی اہم عناصر قرار دیا۔ لیکن، ان کے بقول، چین ایک بڑی وجہ ضرور ہے۔

یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیائی امور کے سینئر مشیر ڈینیئل مارکی، چین کی علاقائی جارحیت روکنے کو امریکہ اور بھارت کے درمیان تعاون کی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق بھارت کی جانب سے خطے میں چین کے سیاسی اثر و رسوخ اور فوجی موجودگی کی توسیع کو چیلنج کرنا امریکہ اور بھارت کے مشترکہ مفاد میں ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ سب سے فوری تشویش کا معاملہ چین اور بھارت کی زمینی سرحد پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول ہے جہاں چین نے فوجی انفراسٹرکچر میں وسیع سرمایہ کاری کی ہے اور جس کی وجہ سے وہ پہلے ہی بھارت کو گشت کرنے کے مقامات سے پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

کیا چین کی وجہ سے بھارت اور امریکہ قریب آ رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:14 0:00

ڈینیئل مارکی کے مطابق امریکی حکام ایسے حملوں کو روکنے اور بھارت کی دفاعی صلاحیت کو تقویت دینے میں مدد کرنا چاہتے ہیں، امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ حملے بھارتی سلامتی کے لیے ایک حقیقی قریب المدت خطرہ ہیں اور ایک ایسی خطرناک مثال کی نمائندگی کرتے ہیں جس کے تحت چین ہند-بحرالکاہل کے علاقے میں دیگر کم طاقتور ریاستوں کو ڈرا سکتا ہے۔

دورے کے بارے میں ایک بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ بھارت کو امریکی دفاعی ساز و سامان کی فروخت کا مقصد بھارتی صلاحیت کے خلا کو پُر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، وہ کہتے ہیں کہ امریکی ساختہ ڈرونز بھارت کی طرف سے ساتھ سرحدی نگرانی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے لڑاکا طیاروں کے انجن کو مشترکہ طور پر تیار کرنے کی افادیت کا بھی حوالہ دیا۔

خیال رہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اس بات کا عہد کیا تھا کہ بھارت خطے میں سپلائی چینز کو آزادانہ طور پر برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادار کرے گا۔

امریکہ انڈو پیسیفک خطے میں سپلائی چینز کو آزادانہ طور پر برقرار رکھنے کو اپنی اہم ترجیحات میں شامل کرتا ہے۔ حالیہ کچھ مہینوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بیجنگ کا دورہ کیا جبکہ امریکی حکام نے دونوں ممالک میں روابط کو کھلے رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔

'خدشہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرد جنگ جیسا ماحول نہ بن جائے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:03 0:00

ماہرین کے مطابق امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں عالمی تناظر میں جاری دیگر معاملات بھی اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں روس کی یوکرین میں جاری جنگ دونوں ممالک میں اختلافات کا باعث بھی ہے۔

بھارت کے لیے روس ایک عرصے سے قابل اعتماد اتحادی ہے جو اس کی دفاعی اور توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔ نئی دہلی نے یوکرین جنگ کے آغاز سے اس معاملے پر ایک غیرجانبدارانہ موقف اپنارکھا ہے۔

دوسری طرف امریکہ کہتا ہے کہ روس کی یوکرین کے خلاف جارحیت یورپ اور دنیا کے لیے خطرہ ہے اور اس جنگ میں واشنگٹن کی یوکرین کے لیے حمایت میں دوسرے ممالک کو امریکہ کا ساتھ دینا چاہیے۔

تعلقات کے اس پہلو پر بات کرتے ہوئے الزبیتھ تھریل کلیڈ کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم مودی کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بھارت اب بھی یوکرین جنگ پر ایک درمیانی راہ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

"میرا خیال نہیں کہ وزیر اعظم مودی سے یوکرین کے معاملے پر کوئی بڑی تبدیلی متوقع تھی اور نہ ہی اس سے کسی امید کو ٹھیس پہنچی ہے ۔ بلکہ میں سمجھتی ہوں کہ دونوں ممالک (امریکہ اور بھارت) حقیقت پسندانہ انداز میں ایک دوسرے کے موقف کو سمجھتے ہیں۔"

جنوبی ایشیا میں دہائیوں سے چلتی کشیدگی کی اگر بات کی جائے تو دورے کے موقع پر جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں امریکہ اور بھارت نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ سرحد پار دہشت گردی کو روکے۔

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے پولی ٹیکٹ تھنک ٹینک کے محقق عارف انصار کہتے ہیں کہ یہ بات پہلے بھی امریکہ اور بھارت کے مشترکہ بیانات میں شامل رہی ہے اور انسداد دہشت گردی پر امریکہ کا یہ مسلسل موقف رہا ہے کہ تمام ملکوں کو اسے روکنے کا کہا جائے۔

تاہم، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں یہ بیان عجیب سا لگتا ہے"کیونکہ پاکستان اس وقت اقتصادی چیلنجز، عدم استحکام اور انسانی حقوق کے انتہائی گھمبیر مسائل میں گھرا ہوا ہے۔یہ بات عیاں ہے کہ ایسے حالات میں کوئی ملک دہشت گردی سے کامیابی سے کیسے نمٹ سکتا ہے جبکہ حکومت کو اس لڑائی کے لیے ضروری استحکام اور لوگوں کی حمایت حاصل نہ ہو۔ "

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کے حالات دہشت گردی کے پھیلاؤ کے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔

"اگر مشترکہ بیان میں پاکستان کے مسائل کا بھی ذکر ہوتا تو یہ بیان زیادہ معنی خیز ہوتا۔ لیکن اس کا دوسرے مسائل سے الگ تھلگ ذکر عجیب سا دکھائی دیتا ہے۔"

XS
SM
MD
LG