سائنس دان کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد اب یہ امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ کینسر کے بارے میں تحقیق اہم موڑ پر پہنچ گئی ہے جس کے بعد یہ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ آئندہ پانچ برس میں اس مرض کے لیے متعدد ویکسینز تیار ہو جائیں گی۔
ان ویکسینز کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ روایتی ویکسین نہیں ہوں گی جو بیماری کو روکتی ہیں بلکہ یہ ٹیومر کا پھیلاؤ اور کینسر کو واپس آنے سے روکنے کے لیے معاون ہوں گی۔
اس سال جلد کے مہلک کینسر اور لبلبے کے سرطان کے علاج میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کے بعد مزید اہداف میں چھاتی اور پھیپھڑوں کے کینسر کا علاج شامل ہے۔
"ہم کچھ کامیابی حاصل کر رہے ہیں اور اب ہمیں اسے بہتر طریقے سے استعمال کرنےکی ضرورت ہے۔"
یہ کہنا ہے کہ امریکی ریاست میری لینڈ میں قائم نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ میں کینسر ریسرچ سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر جیمزگلی کا، جو کینسر کے علاج کے لیے ویکسین سمیت مدافعتی علاج پر کام کر رہے ہیں۔
سائنس دان اب پہلے سے کہیں زیادہ اس بات کو سمجھنے کے اہل ہیں کہ سرطان کس طرح جسم کے مدافعتی نظام سے پوشیدہ رہتاہے۔ کینسر ویکسین دیگر امیونو تھیراپیز کی طرح کینسر کے خلیات کو جسم میں تلاش اور ختم کرنے کے لیے مدافعتی نظام کو مؤثر بناتی ہے۔
کینسر کی ویکسین بنانے کے لیے کچھ نئے ایم آر این اے کا استعمال بھی ہو رہا ہے جو کینسر کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن سب سے پہلے اسےکرونا وائرس کی ویکسین کی تیاری میں استعمال کیا گیا تھا۔
امریکی ریاست واشنگٹن میں یونیورسٹی آف واشنگٹن کے کینسر ویکسین انسٹیٹیوٹ کی ڈاکٹر نورا ڈِسس کہتی ہیں کہ کسی ویکسین کو کارگر بنانے کے لیے جسم کےمدافعتی نظام کے ’ٹی خلیات‘ کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ کینسر کے خطرناک ہونے کو تسلیم کریں۔
ایک بار تربیت حاصل کرنے کے بعد ’ٹی خلیات‘ خطرے کا شکار کرنے کے لیے جسم میں کہیں بھی سفر کر سکتے ہیں۔
’’اگر آپ نے ایک فعال ٹی سیل دیکھا ہے تو اس کے پاس تقریباً پاؤں ہوتے ہیں۔"
ڈاکٹر نورا ڈِسس کہتی ہیں کہ آپ اسے خون کی نالیوں میں سے رینگتے ہوئے ٹشوز میں نکلتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
کسی بھی بیماری کی تحقیق میں رضاکار مریض اہم ہوتے ہیں۔ 50 سالہ کیتھلین جیڈ کو فروری کے آخر میں معلوم ہوا کہ انہیں چھاتی کا کینسر ہے۔ چند ہفتے بعد وہ اور ان کے شوہر امریکی ریاست واشنگٹن سے دنیا بھر کی مہم جوئی کے لیے روانہ ہو نے والے تھے۔ لیکن وہ اپنی 46 فٹ لمبی کشتی میں سفر پر روانہ ہونے کے بجائے اسپتال میں تجرباتی ویکسین کی تیسری خوراک کا انتظار کر رہی تھیں۔
وہ یہ دیکھنے کے لیے ویکسین لے رہی ہیں کہ کیا یہ سرجری سے پہلے ان کے ٹیومر کو سیکڑ دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا اگر تھوڑا سا بھی امکان ہے تو بھی اس کی اہمیت ہے۔
سرطان کی پہلی ویکسین
سرطان کے علاج کے لیے ویکسین میں پیش رفت ایک چیلنج رہا ہے۔
پہلی ’پرووینج‘ یا ویکسین 2010 میں امریکہ میں ایسے پروسٹیٹ کینسر کے علاج کے لیے منظور کی گئی تھی جو جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل چکا ہو۔
اس کے لیے مریض کے اپنے مدافعتی خلیوں کو لیبارٹری میں پروسیس کرنے اور انہیں’ آئی وی‘ کے ذریعے جسم میں واپس منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
مثانے کے ابتدائی کینسر اور ایڈوانسڈ میلانوما کے علاج کی ویکسین بھی موجود ہیں۔
امریکہ کی ریاست پینسلوینیا کی یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے اسکول آف میڈیسن میں ویکسین پرتحقیق کرنے والی ڈاکٹر اولجا فِن کہتی ہیں کہ کینسر کی ابتدائی ویکسین کے لیے تحقیق ناکام ہو گئی تھی البتہ یہ تمام آزمائشیں جو ناکام ہوئی تھیں ان سےہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
ڈاکٹر اولجا فن اب ایسے مریضوں پر توجہ دے رہی ہیں جن میں کینسر ابتدائی اسٹیج میں ہو ، کیوں کہ تجرباتی ویکسین ایسے مریضوں کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوتیں جن کا مرض پھیل چکا ہو۔
کینسر کو بڑھنے سے روکنے والی مزید ویکسینز پر پیش رفت کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
عشروں پرانی ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین جگر کے کینسرسے بچاتی ہیں اور 2006 میں متعارف کرائی گئی ایچ پی وی ویکسین سروائیکل کینسر سے بچاؤ میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔