لیبیا کی سرحد پر سب صحاراافریقہ سے تعلق رکھنے والے 500 تارکین وطن کو, جن میں بچے بھی شامل ہیں، تیونس منتقل کیا جا رہا ہے۔ امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ یہ تارکین وطن ایک ہفتے سے لیبیا اور تیونس کی سرحد پرایک خطرناک علاقے میں ، جو نو مینز لینڈ کہلاتا ہے، بنیادی سہولیات کے بغیر پھنسے ہوئے ہیں ۔ تارکین وطن کا یہ گروپ اس ماہ کے شروع میں تیونس کے ساحلی شہر سفیکس میں ہونے والے قتل کے بعد پھوٹ پڑنے والے نسلی اور تارکین وطن مخالف مظاہروں کے دوران سمندر کے راستے بیرونی سفر پر روانہ ہوا تھا ۔
تیونس کے سفیکس شہر کو انسانی سمگلروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ، جوخطرناک اور اکثر اوقات ہلاکت خیز واقعات کی وجہ بننے والی کمزور کشتیوں میں تارکین وطن کو بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچاتے ہیں۔
سفیکس کے پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا ہے کہ ایک ایسی ہی کشتی اتوار کوتیونس کے ساحل کے قریب ڈوب گئی تھی ۔ کوسٹ گارڈ کے عملے نے کشتی میں سوار 11 افراد کو بچالیا اور دس افراد کو لاپتہ قرار دے دیا گیا، جبکہ ایک شخص کی لاش سمندر سے نکال لی گئی۔
لیبیا اور تیونس کے سرحدی علاقے میں دھکیلے جانے والےسیکڑوں تارکین وطن کی صورتحال نے بین الاقوامی انسانی گروپوں کو تشویش میں مبتلا کردیا اور انہوں نے اس ضمن میں کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس سےتیونس کی نقل مکانی کی پالیسیوں کے بارے میں بھی سوالات پیدا ہوئے ہیں جس کی آمرانہ حکومت کو دو ہفتے قبل یورپی یونین نے اس کی گرتی ہوئی معیشت میں مدد اور تارکین وطن کی کشتیوں کو یورپ جانے سے روکنے کے لیے سرحدی خدمات بہتر بنانے کے سلسلے میں ایک ارب ڈالر کی پیشکش کی تھی ۔
انسانی ہمدردی کے اداروں کے دباؤ کے تحت تیونس کے صدر قیس سعید نے اتوار کو تیونس کے ادارے ریڈ کریسنٹ کو تارکین وطن کو امداد پہنچانے کی ہدایت کی تھی۔ تیونس کےریڈ کریسنٹ کے سر براہ عبد الطیف چھابو نے کہا ہے کہ سب صحارا سے تعلق رکھنے والے 195 تارکین وطن کا تیونس واپس بھیجنے سے متعلق ادارے کی لسٹ میں اندراج کر لیا گیا ہے ۔
تیونس کے انسانی حقوق کے گروپ ہیومن رائٹس آبزرویٹری کے صدر مصطفی عبد الکبیر نےکہا ہے کہ نو مین لینڈ قرار دیئے گئے سرحدی زون میں پھنسے ہوئے کل ساڑھے چار سو تارکین وطن کو آہستہ آہستہ تیونس کے مختلف علاقوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔
انہوں نے ریڈیو موسیق کو بتایا کہ تارکین وطن کو نکاسئی آب اور حفظان صحت کی بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں اور وہ سرحد کی دونوں جانب سے مسلح فورسز کے درمیان،سخت گرمی اور بغیر کسی پناہ گا ہ کے پھنسے ہوئے ہیں ۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے کہا ہے کہ ان کا ادارہ تیونس کے حکام سے مل کر انسانی امداد کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہا ہے، اور اس نے تیونس سے مطالبہ کیا کہ وہ "تمام تارکین وطن کے وقار اور حقوق" کا احترام کرے اور "نقصان دہ اور منفی بیان بازی، نفرت انگیز تقریر اور نفرت انگیز جرائم" کا مقابلہ کرے۔
تیونس ہیومن رائٹس لیگ نے سفیکس شہر میں کشیدگی سے نمٹنے کے لیےہنگامی مرکز بنانے کا مطالبہ کیا۔
تیونس کی حزب اختلاف کے سیاست دان نجیب چھیبی نے حکام پر تعصب پھیلانے اور تارکین وطن کو ان کے سیاہ فام ہونے کی وجہ سے ملک بدر کرنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ 'یہ ایک رسوائی ہے، اور یہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب رہے گا'۔
ادھر جرمنی کی قدامت پسند حزب اختلاف کے لیڈر فریڈرک مرز (Friedrich Merz )نے منگل کو کہا کہ بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی میزبانی جرمنی کے لئے اہم مسئلہ بنتی جا رہی ہے اور اس سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والی جماعتوں کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
برلن میں غیر ملکی نامہ نگاروں سے ایک نیو ز کانفرنس سے خطاب میںجرمن حزب اختلاف کے رہنما نے کہا کہ” پناہ گزینوں کا مسئلہ آنے والے ہفتوں ، مہینوں اور ممکن ہے کہ اگلے برسوں میں بھی ہمارے معاشرے کا بدستور اہم موضوع رہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ میں اس کا کوئی حل تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتا ہوں'.
غیر قانونی راستوں سے ترک وطن کے خواہش مند افراد کے مسئلے سے نمٹنا دنیا بھر میں حکومتوں کے لئے سنگین چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ مغربی ملکوں میں اسے معاشی اور روزگار کے وسائل پر بوجھ سمجھ کر نمٹنے کی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں، جبکہ انسانی حقوق کے ادارے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تارکین وطن کو جو مشکل حالات میں اپنے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، نئی اور محفوظ زندگی دینے کے لئے میزبان ملکوں کو اپنے وسائل کے استعمال میں فیاضی اور کھلے دل سے کام لینا چاہئے۔
(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے )