ایک برطانوی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ پناہ کے طلبگار غیر قانونی تارکین وطن کو کسی محفوظ سمجھے جانے والے ملک میں بھیجنے کی پالیسی بذات خود غیر قانونی نہیں ، لیکن انہیں روانڈا بھیجنے کا منصوبہ غیر قانونی ہے،اور اس سے تارکین وطن کو انگلش چینل میں خطرناک سفر کرنے سے روکنے کے برطانوی عزم کو دھچکا لگا ہے۔عدالت کے تین میں سے دو ججوں نےکہا کہ روانڈا کو ئی ایسا محفوظ ملک نہیں جہاں کسی بھی ملک سے تارکین وطن کو بھیجا جا سکے، برطانیہ کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو برطانوی سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ اس کے پاس اپیل دائر کرنے کے لیے 6 جولائی تک کا وقت ہے۔
اس فیصلے کے بارے میں وزیر اعظم رشی سونک نے کہا کہ " میں عدالت کا احترام کرتا ہوں، لیکن میں بنیادی طور پر اس فیصلے سے متفق نہیں ہوں۔"رشی سونک یہ وعدہ کر چکےہیں کہ وہ گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی چھوٹی کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے فرانس سے برطانیہ آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو روک دیں گے۔
برطانیہ اپنے ملک میں پناہ گزینوں کے بڑھتے ہوئے دباو کو کم کرنا چاہتا ہے ۔ ان کوششوں میں خاص طور پر اس وقت اضافہ ہوا جب گزشتہ سال انگلش چینل کے ذریعے 45,000 سے زیادہ لوگ برطانیہ پہنچے۔ اس کوشش میں کئی لوگ ہلاک بھی ہو گئے تھے۔
انہی حالات میں برطانیہ اور روانڈا کی حکومتوں کے درمیان 2022 میں یہ معاہدہ طے پایا کہ چھوٹی کشتیوں میں برطانیہ آنے والے کچھ تارکین وطن کو روانڈا بھیجا جائے گا اور وہیں ان کی درخواستوں پر کارروائی ہو گی اور جن لوگوں کو سیاسی پناہ دی جائے گی وہ برطانیہ واپس جانے کے بجائے روانڈا ہی میں رہیں گے۔
برطانیہ اس معاہدے کے تحت روانڈا کو 140 ملین پاؤنڈ ( 170 ملین ڈالر ) پہلے ہی ادا کر چکا ہے، لیکن ابھی تک کسی کو روانڈا ڈی پورٹ نہیں کیا گیا ہے۔برطانوی اپیلز کورٹ کے جمعرات کے فیصلے سے تارکین وطن کوروانڈا بھیجے جانے کی کارروائی روک دی گئی ہے ۔
ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر یاسمین احمد نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ برطانیہ میں انسانی حقوق کے منظر نامے میں ایک غیر معمولی اچھی خبر ہے ۔انہوں نے برطانیہ میں امیگریشن کی انچارج وزیر داخلہ سویلا بریورمین پر زور دیا کہ وہ اس ناقابل عمل پالیسی کو ختم کریں اور اپنی توجہ ملک کے ٹوٹے ہوئے اور نظرانداز امیگریشن سسٹم کو ٹھیک کرنے پر مرکوز کریں ۔"
برطانیہ کی ایک عدالت نے دسمبر میں فیصلہ دیا تھا کہ یہ پالیسی قانونی ہے اور برطانیہ اس پر عمل کر کے اقوام متحدہ کے پناہ گزین سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کر رہا۔
دوسری طرف عدالت نے برطانیہ سے بے دخلی کا سامنا کرنے والے عراقی، ایرانی اور شامی تارکین وطن درخواست گزاروں کو بعض وجوہات کی بنیاد پریہ فیصلہ چیلنج کرنے کی اجازت بھی دی کہ کیا یہ منصوبہ منظم طریقے سے غیر منصفانہ ہے، یا کیا پناہ کے متلاشی روانڈا میں محفوظ ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جمعرات کے فیصلے میں یہ کہا جانا کہ پناہ کے طلبگاروں کو کسی تیسرے محفوظ ملک میں بھیجنے کی برطانوی پالیسی سے بین الاقوامی زمہ داریوں کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ، برطانوی حکومت کی جزوی کامیابی ہے ۔ لیکن تین میں سے دو ججز کا یہ کہنا کہ روانڈا محفوظ ملک نہیں ہے، اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ روانڈا کے سیاسی پناہ کے نظام میں شدید نقائص ہیں اور روانڈا بھیجے جانے سے پناہ کے متلاشیوں کو ان کے آبائی ملکوں میں واپس بھیجنے کا خطرہ موجود رہے گا۔
انگلینڈ اور ویلز کےسب سے سینئر جج ، لارڈ چیف جسٹس ایان برنیٹ نےکہا کہ روانڈا کی حکومت کی جانب سے دی گئی یقین دہانیاں یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہیں کہ وہاں تارکین وطن محفوظ ہوں گے۔
واضح رہے کہ اگر غیر قانونی تارکین وطن کو برطانیہ سے روانڈا منتقل کرنے کے منصوبے کو قانونی قرار دے دیا گیا، تو کتنے لوگوں کو روانڈا بھیجا جا سکتا ہے، یہ واضح نہیں ۔ برطانوی حکومت کے تخمینوں کے مطابق یہ کارروائی انتہائی مہنگی ہو گی اور روانڈا بھیجنے پر ایک لاکھ 69 ہزار پاؤنڈ یا 2 لاکھ چودہ ہزار ڈالر فی کس خرچ ہوں گے۔اس صورتحال کی وجہ سے برطانوی حکومت اس سال مارچ میں پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اس بل کی منظوری کی کوششیں تیز کر سکتی ہے ، جس کے تحت غیر قانونی طور پر برطانیہ آنے والے کسی تارک وطن کو سیاسی پناہ کی درخواست دائر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ برطانوی حکومت انہیں حراست میں لے گی اور پھر انہیں ان کے آبائی ملک یا کسی تیسرےمحفوظ ملک بھیج دیا جائےگا اور وہ دوبارہ کبھی برطانیہ میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔
(اس خبر کامواد اے پی سے لیا گیا ہے)