رسائی کے لنکس

تحریکِ عدم اعتماد؛ وزیر اعظم مودی کو اکثریت حاصل ہونے کے باوجود کیا سیاسی چیلنجز ہیں؟


فائل فوٹو؛
فائل فوٹو؛

حزب اختلاف کی 26 جماعتوں کے نو تشکیل شدہ محاذ ’انڈیا‘ (انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس) نے شمال مشرقی ریاست منی پور میں تقریباً تین ماہ سے جاری نسلی فسادات پر وزیرِ اعظم نریند رمودی کو پارلیمان میں بیان دینے پر مجبور کرنے کے لیے ان کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کی ہے۔

وزیرِ اعظم مودی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کانگریس کے رکنِ لوک سبھا گورو گوگوئی نے جمع کرائی ہے۔ ان کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کیوں کہ وہ شمال مشرق سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے سینئر رہنما ہیں اور تحریک کا مرکزی موضوع منی پور میں ہونے والے پُر تشدد واقعات ہیں اور یہ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں شامل ہے۔

پارلیمنٹ کا مون سون اجلاس 20 جولائی سے شروع ہوا ہے جو 11 اگست تک جاری رہے گا۔ اجلاس کے پہلے ہی دن سے اپوزیشن کی جانب سے وزیرِ اعظم سے منی پور کے معاملے پر ایوان میں بیان دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اجلاس شروع ہونے سے قبل وزیرِ اعظم مودی نے ایوان سے باہر منی پور کی صورتِ حال پر بیان دیا تھا تاہم اپوزیشن ان کے مختصر بیان سے مطمئن نہیں ہے۔

گوکہ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے ابھی تحریک پر بحث کرانے کی تاریخ مقرر نہیں کی ہے لیکن ضابطے کے مطابق انھیں اس کام کے لیے 10 دنوں کے اندر بحث کرانے کی تاریخ مقرر کرنا ہوگی۔ توقع ہے کہ اگلے ہفتے عدم اعتماد کی تحریک پر بحث ہو گی۔

لوک سبھا میں حکمرا ں اتحاد ’این ڈی اے‘ (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کے ارکان کی تعداد 331 جب کہ ’انڈیا‘ کے ارکان کی تعداد 150 ہے۔ اس سے واضح ہے کہ وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگی۔

کانگریس کے رکن پارلیمان منیش تیواری کہتے ہیں کہ ’یہ نمبروں کا نہیں بلکہ اخلاقیات کا معاملہ ہے۔ جب اس پر ایوان میں ووٹنگ ہوگی تو اخلاقیات کا امتحان ہوگا۔ یہ ہر رکن کی ذمے داری ہو گی کہ وہ اپنا مؤقف واضح کرے۔ یہ تحریک اس لیے پیش کی گئی ہے تاکہ ہمیں اہم امور پر حکومت کی ناکامی پر بولنے کا موقع ملے‘۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جمہوریت میں تحریکِ عدمِ اعتماد حکومت اور ایوان کی اجتماعی ذمے داری کے امتحان کا ایک طریقہ ہے۔ اگر کوئی حکومت کسی اہم مسئلے پر بولنے یا بحث کرانے سے راہِ فرار اختیار کرتی ہے تو اس تحریک کی مدد سے اسے اپنا موقف سامنے لانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اپوزیشن کیا چاہتی ہے؟

سینئر تجزیہ کار نیلانجن مکھوپادھیائے کہتے ہیں کہ حکومت کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کرنا اپوزیشن کا حق ہے۔ اس کا مقصد حکومت کو گرانا نہیں بلکہ ملک کو درپیش اہم مسائل پر حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرنا اور اپنا مؤقف رکھنا ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس تحریک کو 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل اپوزیشن کے متحد ہونے اور اس کے جواب میں حکومت کی جانب سے این ڈی اے کے تمام حلیفوں کو اکٹھا کرنے کی کوششوں کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

ان کے خیال میں اس وقت سیاسی محاذ پر جو حالات ہیں ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پارلیمانی انتخاب سے قبل سیاسی ماحول بہت زیادہ گرم ہو گیا ہے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں اپوزیشن نے تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کرکے حکومت اور بالخصوص وزیر اعظم کو کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا ہے۔ اب انھیں ہر حال میں منی پور کے مسئلے سمیت بلکہ دیگر اہم مسائل پر ایوان میں بات کرنا پڑے گی۔

سینئر تجزیہ کار راجیش جوشی کہتے ہیں کہ اب وزیر اعظم مودی کے لیے کوئی راہِ فرار نہیں ہے۔ کیوں کہ جب ایوان میں بحث ہو گی تو آخر میں انھیں اس کا جواب دینا ہی ہوگا۔

ان کے بقول، ایسا نہیں ہے کہ منی پور کے مسئلے پر بولنے کے لیے وزیرِ اعظم کے پاس کچھ نہیں تھا، وہ بہت کچھ بول سکتے تھے۔ لیکن اس معاملے پر خاموشی سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو سیاسی فائدہ پہنچ رہا تھا۔

تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اب حالات مختلف ہو گئے ہیں۔ اب بی جے پی کے ارکانِ پارلیمنٹ ہی اپنی حکومت اور پارٹی قیادت کے خلاف بول رہے اور منی پور کی صورت حال کو ان کی ناکامی بتا رہے ہیں۔

یاد رہے کہ منی پور سے بی جے پی کے رکن اسمبلی پاولینلال ہاؤکپ نے اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ کے لیے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ منی پور کا تشدد اسٹیٹ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ جب کہ بی جے پی کے نو ارکان اسمبلی نے وزیر اعظم کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ ریاستی حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔

بی جے پی کی حکمتِ عملی ؟

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم مودی مسائل پر اپنا موقف واضح کرنے سے بچنے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ وہ منی پور اور دیگر مسائل پر ضرور بولیں گے لیکن کیا بولیں گے اور کتنا بولیں گے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

نیلانجن مکھوپادھیائے کہتے ہیں کہ اگر مودی منی پور کے مسئلے پر نہیں بولیں گے تو عوام اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کے پاس منی پور جیسے نظم و نسق کی ناکامی کے سنگین الزام کا کوئی جواب نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ تحریک پر ہونے والی بحث کا جواب دیتے ہیں تو یہ اپوزیشن کی اخلاقی فتح ہو گی۔

ادھر بی جے پی رہنماؤں کے بیانات سے ایسا نہیں لگتا کہ حکومت کو تحریکِ عدمِ اعتماد سے کوئی پریشانی ہے۔ پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی کہتے ہیں کہ اس تحریک سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اپوزیشن نے 2018 میں بھی مودی حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کی تھی جو ناکام ہو گئی تھی۔

انھوں نے جمعرات کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے اپنے مزاج کے مطابق اس معاملے پر دیگر اپوزیشن پارٹیوں سے کوئی مشاورت نہیں کی۔ ان میں آپس میں ہی اعتماد نہیں ہے اور وہ وزیر اعظم مودی میں عوامی اعتماد پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ جس طرح 2014 اور 2019 میں عوام نے مودی حکومت میں اپنے اعتماد کا اظہار کیا تھا اسی طرح 2024 میں بھی کریں گے۔

راجیش جوشی کے خیال میں وزیر اعظم مودی ایک کامیاب مقرر ہیں۔ وہ بولتے ہیں تو لوگ سنتے ہیں۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں متعدد بار اپوزیشن کے حملوں کو ناکام بنایا ہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی اور بی جے پی نعروں اور فقروں کی تلاش خراش میں ماہر ہیں۔ لیکن اس بار اپوزیشن نے اپنے محاذ کا نام ’انڈیا‘ رکھ کر ان کے اس داؤ کو اپنے حق میں استعمال کر لیا ہے۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم مودی نے اپوزیشن محاذ کے نام ’انڈیا‘ کے حوالے سے اپوزیشن پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ نام بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی، انڈین مجاہدین اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا میں بھی لفظ انڈیا لگا ہوا ہے۔

ان کے اس بیان پر کئی تجزیہ کاروں نے سخت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وزیراعظم مودی لفظ ’بھارت‘ پر زور دے رہے ہیں۔ انھوں نے بدھ کے روز پرگتی میدان میں تعمیر ہونے والے کنونشن سینٹر کے افتتاح پر بار بار بھارت لفظ پر زور دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن محاذ کے نئے نام سے ان پر گھبراہٹ طاری ہے۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی نے نو تعمیر شدہ کنونشن سینٹر کا نام ’بھارت منڈپم‘ رکھا ہے۔ یہاں رواں برس ستمبر میں جی 20 کا سربراہی اجلاس منعقد ہوگا۔

بی جے پی ترجمانوں اور ان نشریاتی اداروں کا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت کے حامی ہیں، کہنا ہے کہ حکومت خود اپوزیشن کو تحریکِ عدمِ اعتماد تک لانا چاہتی تھی تاکہ وزیر اعظم بحث کے جواب میں اس کے کھیل کو ناکام بنا سکیں۔ اس سے عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ مودی حکومت بہت مضبوط ہے اور اس سے انتخابات میں پارٹی کو تقویت ملے گی۔

نیلانجن مکھوپادھیائے کہتے ہیں کہ نریندر مودی جب سے سیاست میں آئے ہیں اپنی مظلومیت کا کارڈ کامیابی سے کھیلتے رہے ہیں۔ اس بار بھی وہ خود کو مظلوم کی حیثیت سے پیش کریں گے۔ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ وہ اس بار بھی مودی کے موقف کی تائید کرتے ہیں یا نہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG