امریکہ نے کہا ہے کہ اس نے افغان طالبان کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کے تازہ ترین دور میں ان پر زور دیا ہے کہ وہ ان پالیسیوں کو تبدیل کریں جن کی وجہ سے ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے جس میں خاص طور پر خواتین، لڑکیاں اور ملک کے کمزور طبقات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے طالبان حکومت کے ان اقدامات کو سراہا جن کے نتیجے میں ملکی معیشت میں بہتری اور منشیات کی روک تھام میں مدد ملی ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے ان دوطرفہ مذاکرات میں افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ اور طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے اپنے وفود کی قیادت کی۔
مذاکرات کے بعد ایک امریکی بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ملک میں جاری حراستوں، میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن اور مذہبی امور کی ادائیگی کے سلسلے میں پابندیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ بیان کے مطابق امریکہ نے افغان عوام کی جانب سے انسانی حقوق کے احترام اور افغانستان کے مستقبل کی تشکیل سے متعلق مطالبات کی حمایت کی ۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ’’حالیہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 2023 میں افغانستان میں افراط زر میں کمی اور تجارتی برآمدات اور درآمدات میں اضافہ ہوا ہے‘‘ ۔
مذاکرات میں سلامتی سے متعلق طالبان کی ان کوششوں پر بھی بات ہوئی جن کا تعلق افغان سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکی وفد نے تسلیم کیا کہ افغان شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملوں میں کمی آئی ہے۔"
امریکی حکام نے طالبان وفد پر زور دیا کہ وہ زیر حراست امریکی شہریوں کوفوری اور غیر مشروط رہا کریں اور کہا کہ یہ حراستیں مثبت رابطہ کاری میں رکاوٹ ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پوست کی کاشت پر طالبان کی پابندی کے نتیجے میں موجودہ سیزن کے دوران اس کی کاشت میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
اس سے قبل طالبان کی زیر قیادت وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ متقی اور ان کی ٹیم نے واشنگٹن پر زور دیا کہ وہ طالبان راہنماؤں پر عائد سفری پابندیاں اٹھائے، جنگ سے متاثرہ ملک پر نافذ اقتصادی پابندیاں ختم کرے، اور افغان بینک کے منجمد فنڈز کو جاری کرے۔ بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ مذاکرات میں انسانی حقوق کی معاملات بھی زیر بحث آئے۔
طالبان نے اگست 2021 میں کابل پر قبضہ کرنے سے پہلے لگ بھگ 20 سال تک امریکی قیادت کی اتحادی افواج اور افغانستان کی حکومت کے خلاف جنگ لڑی تھی۔
طالبان کے ایک درجن سے زیادہ اہم رہنما امریکہ کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں اور امریکی فوجیوں کے خلاف حملوں میں ان کے کردار کی بنا پر ، ان کی گرفتاری اور نشاندہی میں مدد پر لاکھوں ڈالر کے انعامات مقرر ہیں۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں جمع افغانستان کے مرکزی بینک کے تقریباً 9 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر کابل پر طالبان کے قبضے کے فوراً بعد منجمد کر دیے گئے تھے تاکہ ان فنڈز تک ان کی رسائی کو روکا جا سکے۔اس کے علاوہ افغانستان کے مالیاتی اور بینکنگ سیکٹر پر بھی پابندیاں لگا دی گئیں تھیں۔
اس کے بعد سے واشنگٹن نے امریکہ میں موجود 7 ارب ڈالر کے منجمد فنڈز میں سے نصف رقم سوئٹزرلینڈ کے ایک ٹرسٹ فنڈ میں منتقل کر دی تاکہ اسے صرف افغانستان میں انسانی ہمدردی کے کاموں کے لیے ہی استعمال کیا جا سکے۔
طالبان نے ٹرسٹ فنڈ کے قیام کو مسترد کر دیا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ یہ تمام فنڈز افغانستان کے مرکزی بینک کو واپس کیے جائیں۔
بنیاد پرست طالبان رہنماؤں نے اس غریب ملک میں اپنا تشریح کردہ سخت اسلامی قانون نافذ کیا ہے ، لڑکیوں کے لیے چھٹی جماعت سے آگے تعلیم پر پابندی لگا دی ہے۔ خواتین کے لیے زیادہ تر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔انہیں عوامی مقامات، پارکوں، جمز ، حتی کہ بیوٹی پارلرز جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
طالبان نے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ایجنسیوں میں افغان خواتین کے عملے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جس سے ایک ایسے ملک میں انسانی ہمدردی کی کارروائیاں متاثر ہورہی ہیں جہاں دو کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ افراد کو خوراک کی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک نے ابھی تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
واشنگٹن اور دنیا نے افغان خواتین پر عائد پابندیوں کی مذمت کی ہے اور وہ طالبان سےمطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا جائے اور ان پر عائد پابندیا ں اٹھا لی جائیں تو وہ خواتین پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔
(ایاز گل، وی او اے نیوز)
فورم