اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نبتن یاہو نے 27 ارب ڈالر کے ایسے ریل منصوبے کا اعلان کیا ہے جو مستقبل میں تل ابیب کو سعودی عرب سے ملا سکتا ہے۔
نیتن یاہو کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ جمعے کو صدر بائیڈن نے عندیہ دیا ہے کہ ممکنہ طور پر اسرائیل اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کے لیے معاہدہ ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ جمعرات کو صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔
اس دورے کے بارے میں مختلف ذرائع سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ جیک سلیوان نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات میں یمن سے جنگ بندی کے علاوہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام پر بھی بات چیت کی تھی۔
اس بارے میں سعودی حکومت نے تاحال کوئی موقف نہیں دیا۔ لیکن جمعے کو صدر بائیڈن کی جانب سے کسی ممکنہ معاہدے کے اشارے کے بعد سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے امکانات عالمی سطح پر زیرِ بحث ہیں۔
پیر کو خطے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے حریف ملک ایران نے بھی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی خبروں پر ردِعمل دیا ہے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنے بیان میں کہا کہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات قائم ہونے سے خطے کے امن کو نقصان پہنچے گا۔
ان حالات میں وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی جانب سے سعودی عرب سے تعلقات میں بہتری کے بیان کو اس پس منظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم بعض مبصرین کے مطابق ریلوے منصوبے کے اعلان میں دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔
ریلوے منصوبہ کیا ہے؟
نیتن یاہو نے اتوار کو اسرائیل کے شمالی شہر کریات شمونہ سے بحیرۂ احمر میں اسرائیلی سیاحتی مقام ایلات تک ریلوے منصوبے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ عندیہ بھی ظاہر کیا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کو سعودی عرب اور جزیرہ نما عرب سے ملانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ بحیرہ احمر کے کنارے آباد شہر ایلات عرب ملک اردن اور سعودی عرب کی سرحدوں کے قریب واقع ہے۔
وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی حکومت کو گزشتہ سات ماہ سے عدالتی اصلاحات پر اپوزیشن کے احتجاج کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اس آئینی بحران کے باعث ان کی حکومت پر مغربی اتحادیوں کا اعتماد متاثر ہوا ہے۔ اسی لیے انہوں نے انفراسٹرکچر سے متعلق ’ون اسرائیل‘ سمیت انفرا اسٹرکچر سے متعلق اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانا شروع کر دیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق ’ون اسرائیل‘ کے منصوبے کے تحت نیتن یاہو کی حکومت پورے ملک میں حکومتی اور کاروباری مراکز تک سفر کے دورانیے میں کمی لانے کی دعوے دار ہے۔
یہ منصوبہ کئی برسوں سے بار بار سامنے آتا رہا ہے تاہم اس پر بہت کم کام ہو سکا تھا۔ 2010 میں بھی ایک ایسے ہی اربوں ڈالر کے مںصوبے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس پر مزید کام نہیں ہو سکا تھا۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت ان خطوط پر بھی کام کر رہی ہے۔ اسرئیلی وزیرِ خزانہ کے مطابق اسرائیل کے شمال و جنوب کو ملانے والے ہائی اسپیڈ ٹرین منصوبے کی تکمیل میں دس برس کا عرصہ لگے گا۔
تاہم ریل منصوبے کو نیتن یاہو کے اس بیان کی وجہ سے زیادہ اہمیت مل رہی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مستقبل میں ایلات تک جانے والا یہ ٹرین منصوبہ اسرائیل کو سعودی عرب اور جزیرہ نما عرب سے ملانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
امکانات اور قیاس آرائیاں
معروف امریکی تجزیہ نگار تھامس فریڈ مین نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ جو بائیڈن اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ لیکن اُن کے بقول ان کوششوں میں کام یابی کے لیے ہر فریق کے بہت سے مطالبات پورے کرنا ہوں گے۔
فریڈمین نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی عرب، اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے امریکہ سے نیٹو طرز کا ایک دفاعی معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودی عرب پر کسی ممکنہ حملے کی صورت میں امریکہ اس کا دفاع کرے گا۔
تھامس فریڈمین کے مطابق سعودی عرب بظاہر ایران کی جانب سے ہونے والے کسی حملے کی صورت میں امریکہ سے دفاع کی ضمانت چاہتا ہے۔
ان کے مطابق اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے لیے سعودی عرب سویلین ایٹمی پروگرام اور بیلسٹک میزائل شکن پروگرام بھی چاہتا ہے۔
فریڈ مین کا کہنا تھا کہ امریکہ سعودی عرب سے یمن میں جنگ ختم کرنے، مغربی کنارے میں کام کرنے والے فلسطینی اداروں کے لیے غیر معمولی امدادی پیکج اور چین سے تعلقات محدود کرنے کا خواہاں ہے۔
رواں برس چین کی ثالثی سے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی شروع ہوئی تھی جب کہ گزشتہ برس ریاض نے چین سے اس کی مقامی کرنسی میں تیل کی فروخت کی وصولی کرنے پر بھی غور کیا تھا۔
مبصرین کے مطابق چین کے ساتھ سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی قربت پر امریکہ کو تشویش ہے۔
تھامس فریڈ مین کے مطابق اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب اسرائیل سے کیا چاہتا ہے۔
ان کے بقول سعودی عرب، اسرائیل کے ساتھ کسی ایسے معاہدے پر اتفاقِ رائے نہیں کرے گا جو دو ریاستی حل کو متاثر کرنے کا باعث بنے۔
اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان 1990 کی دہائی میں ہونے والے اوسلو معاہدات کے تحت اسرائیل کے ساتھ ایک الگ فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز پر اتفاقِ رائے کیا گیا تھا۔
رکاوٹیں کیا ہو سکتی ہیں؟
مبصرین کے مطابق سعودی عرب کے لیے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے ایسا کوئی بھی حل قابلِ قبول نہیں ہو گا جسے فلسطنیوں کی حمایت حاصل نہ ہو۔
اگرچہ 2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین سمیت دیگر مسلم ممالک کے ساتھ ہونے والے ابراہام اکارڈ پر فلسطینی اتھارٹی نے سردمہری کا مظاہرہ کیا تھا۔ تاہم تھامس فریڈمین کے مطابق اگر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ کسی سمجھوتے پر پہنچتا ہے تو فلسطینی قیادت کو اس کی توثیق کرنا پڑے گی۔
سلیوان کے دورۂ ریاض اور نیو یارک ٹائمز میں تھامس فریڈمین کے کالم کے بعد اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کے امکانات پر عرب اور اسرائیلی میڈیا میں بھی بات ہو رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے کے روز سعودی اخبار کے ایڈیٹر ان چیف فیصل جے عباس نے اس موضوع پر اپنے کالم میں لکھا ہے کہ جیک سلیوان کے دورے کے بعد سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے سے متعلق قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ تاہم ریاض کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی سرکاری مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم مستقبل کے امکانات کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ سعودی عرب کی کوشش رہی ہے کہ ایک ایسا امن معاہدہ ہو جس میں فلسطینیوں کے حقوق کو ترجیح دی جائے۔ اس کے بدلے میں وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور مطلوبہ ضمانتیں دینے کے لیے آمادگی کا اظہار بھی کرتا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو یہ خارجہ امور کے محاذ پر بائیڈن حکومت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہو گی۔
تاہم فیصل عباس نے بھی تھامس فریڈمین کی طرح اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مغربی کنارے میں آباد کاری روکنے کی شرط پر ہونے والا کوئی معاہدہ نیتن یاہو کی حکومت میں شامل دائیں بازو کی قدامت پرست جماعتوں کو قبول نہیں ہو گا۔
واضح رہے کہ ںیتن یاہو مختلف مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔
اسرائیلی اخبار ’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ میں سیاسی اور خارجہ امور پر لکھنے والی صحافی تال شنادیر نے اتوار کو اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ نیتن یاہو کے اتحاد میں شامل سخت گیر جماعتیں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے بدلے میں مغربی کنارے کے الحاق کے مطالبے سے دست بردار نہیں ہوں گی۔
تاہم ان کے بقول یروشلم میں اسرائیل کی سیکیورٹی امور سے واقفیت رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کسی دو ٹوک اور واضح یقین دہانی کے بغیر سفارتی تعلقات کی بحالی کے کسی سمجھوتے پر غور کر سکتا ہے جس کے بعد فلسطینیوں کے معاملے کو اسرائیل پر چھوڑ دیا جائے گا۔
اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کن نکات پر ہو گی اس بارے میں تاحال کئی ٹھوس حقائق دست یاب نہیں ہیں۔ تاہم تھامس فریڈ مین کے مطابق جب بھی ایسا معاہدہ ہوا تو اس معاملے کے ہر فریق؛ اسرائیل، سعودی عرب اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔
ان کے بقول اگر امریکہ کوئی ایسا معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے، جو ہر فریق کے حق میں ہو تو یہ ’ایک بہت، بہت بڑی ڈیل ہو گی۔‘
فورم