پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ نگراں حکومت پر جتنی بھی تنقید ہو،اسے اس کی پروا نہیں ہے۔ اس کی نیت درست ہے اور کوشش ہے کہ ملک کے مجموعی معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے کو درست کیا جا سکے۔
نجی نشریاتی ادارے 'جیو نیوز' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اگر فیصلہ دیا کہ 90 دن میں انتخابات کرانے ہیں تو نگراں حکومت عدالتی فیصلے کی تابع ہے۔ اسے اس پر عمل در آمد کرنا ہوگا۔ اگر عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہوگا تو اس سے جمہوری اور معاشرتی نظام متاثر ہوگا۔
انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ دے اور اس کا انعقاد کرائے۔
انہوں نے رواں برس نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس دن کے واقعات بغاوت یا خانہ جنگی کی ایک کوشش تھی جس کا نشانہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ان کی ٹیم کے افراد تھے۔
انہوں نے سائفر کی گمشدگی کی خبروں کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے تاحال اس حوالے سے کسی قسم کی تحقیقات نہیں کیں۔
توانائی بچت کی نئی پالیسی
بجلی کے زائد بلوں پر ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ اس احتجاج کو پاکستان میں خانہ جنگی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں لیکن یہ اندازے درست نہیں ہیں۔
اپنا ایک واقعہ سناتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ایک سال قبل ان کا بھی اس قدر زیادہ بجلی کا بل آیا تھا کہ ان کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔
ان کے بقول انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنے محدود وسائل میں اس قدر زیادہ بجلی کا بل کیسے ادا کریں گے؟ البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا بجلی کا بل کتنا آیا تھا اور بعد ازاں انہوں وہ بل کس طرح ادا کیا۔
معاشرے میں غریب طبقے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ وہ معاشرے کے سہولیات اور وسائل سے محروم طبقے کے لیے غریب کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ بعض اوقات لوگ جذباتی اور ثقافتی طور پر محروم ہوتے ہیں جب کہ بعض اوقات وہ مالی طور پر محروم ہوتے ہیں لیکن دل کے غنی اور بادشاہ ہوتے ہیں، تو کیا ان کو بھی غریب کہنا درست ہوگا؟
تخریبی کارروائیاں کرنے والوں کے لیے سزا پر زور
گمشدہ افراد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کے لیے زبردستی غائب افراد کی اصطلاح زیادہ مناسب ہوگی کیوں کہ لاپتا یا گمشدہ افراد کی اصطلاح مقامی طور پر استعمال ہونے والا مفہوم ہے۔
نگراں وزیرِ اعظم کے مطابق جو پاکستان میں زندگی کے حق کی توہین کرتا ہے اور ریاست کا امنِ عامہ کا جو بنیادی فرض ہے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایسے لوگوں کے حقوق پر تو تنظیمیں آواز اٹھاتی ہیں لیکن پر امن طریقے سے زندگی کے حق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے بارے میں بات نہیں کی جاتی۔
ان کے بقول اس لیے ایسے لوگوں کو سب سے پہلے غیر ریاستی عناصر، تخریب کار یا کم سے کم مجرمانہ عمل کرنے والا قرار دیا جاتا ہے۔ اس پہلے قدم کے بعد عدالتی کارروائی شروع ہوتی ہے اور یہ عمل بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے ان عناصر کو آزادی مل جائے اور وہ دوبارہ معاشرے میں وہی سرگرمیاں کرنے لگیں بلکہ ان کی سزاؤں کا تعین ہونا چاہیے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بیانیے کی ناکامی پر یہ غیر ریاستی عناصر پروپیگنڈا کے طور پر الزامات کا سہارا لیتے ہیں۔
افغانستان میں مغربی افواج کا چھوڑا گیا اسلحہ مسئلہ قرار
دہشت گردی میں اضافے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ مشرقی سرحد کے اس پار طالبان کے افغانستان میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان کے لیے حالات بہتر ہوں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ حالات مزید بگڑ گئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے حالات سے بھی زیادہ بڑا عنصر وہ جنگی ساز و سامان ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادی انخلا کے وقت وہاں چھوڑ گئے تھے جن میں تھرمل ڈیٹیکٹرز، نائٹ ویژن گاگلز سمیت دیگر آلات شامل ہیں۔
ان کے بقول یہ صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ اس پورے خطے کے لیے ایک مسئلہ ہیں۔ ان میں چین، ایران اور وسطی ایشیا کے ممالک بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پر اس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں جب کہ باقی ممالک کو انتظار کرنا پڑے گا کہ ان کو کب ایسے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سازو سامان سے عسکری گروہوں کی لڑنے کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے اس میں پاکستان کی کسی پالیسی کا عمل دخل نہیں ہے۔
نگراں وزیرِ اعظم کے مطابق اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ذمہ دارانہ انداز میں یہ تمام جنگی ساز و سامان کسی کے حوالے کیا ہوتا تو اس صورتِ حال میں یہ آسان ہوتا کہ ایک ذمہ دار اتھارٹی سے بات چیت کی جا سکتی تھی اور اس سے اس کی ذمہ داری کا تعین کرتے ہوئے پوچھ گچھ کی جا سکتی تھی۔
انہوں نے افغانستان سے مغربی افواج کے انخلا کو ایک بار پھر ہنگامی انخلا قرار دیا۔ ان کے بقول یہ ذمہ دارانہ انخلا نہیں تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی کو نہیں معلوم کہ افغانستان کی فوج کے پاس موجود ساز و سامان کس کے ہاتھ لگا ہے۔ اس میں سے کچھ ساز و سامان تو طالبان کے ہاتھ آیا ہے لیکن دیگر وہاں موجود تخریب کار تنظیموں کے پاس چلا گیا ہے۔ اس کی کوئی واضح تصویر موجود نہیں ہے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ ریاست کے پاس مذاکرات اور طاقت کا استعمال دو ایسے اقدامات ہیں جس سے وہ امنِ عامہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بقول وہ ان دونوں کی بوقتِ ضرورت استعمال کے حامی ہیں۔
فورم