پاکستان میں حالیہ دنوں میں صارفین کو بجلی کے بل معمول سے کئی گنا زیادہ موصول ہوئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور گذشتہ مہینوں کا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے، نتیجتأ عوام کو فی یونٹ بجلی اوسطاََ 50 روپے سے ذیادہ کی مل رہی ہے۔
اگست کے بجلی کے بلوں میں صارفین کے لیے 15روپے فی یونٹ تک قیمت بڑھائی جا چکی ہے۔
حکومت نے یکم جولائی کو بجلی کی قیمت میں فی یونٹ ساڑھے سات روپے تک اضافہ کیا تھا۔ لیکن اس کی مکمل وصولی نہیں ہو سکی تھی جس پر اگست میں صارفین سے دو ماہ کی یکمشت وصولی کی گئی۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک روپے 81 پیسے فی یونٹ کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وصولی بھی بل کا حصہ تھی۔
اس کے بعد بجلی پر عائد ٹیکس نے بھی عوام کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر ایک سال میں بجلی کے صارفین پر ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا بوجھ منتقل کیا گیا ہے۔
ایک عام صارف کا بل جو پہلے 1000سے 2000 روپے کے درمیان تھا وہ اچانک 8000 سے 10 ہزار روپے اور بعض کیسز میں اس سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔
پاکستان میں افراطِ زر کی بلند شرح کے سبب عوام کو بہت زیادہ مہنگائی کا سامنا ہے۔ ایسے میں مہنگی بجلی اور مہنگا فیول عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
فی یونٹ بجلی کتنے کی ہے؟
حالیہ دنوں میں بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے سے اس کی فی یونٹ قیمت 51 روپے 70 پیسے ہوچکی ہے۔
اس حوالے تجزیہ کار علی خضر کہتے ہیں کہ ایک یونٹ بجلی کی قیمت میں 31 فی صد ٹیکسز اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی استعمال کرنے والے صارف کو 31 فی صد کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں۔اور 13 فی صد کراس سبسڈی اور 13 فی صد ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کی مد میں دیے جاتے ہیں جب کہ فیول کی قیمت صرف 12 فی صد ہے۔
پاکستان میں ہر کچھ عرصے کے بعد عالمی منڈیوں میں فیول کی قیمت میں اضافے کو بنیاد بنا کر بجلی کی قیمتیں بڑھائی جاتی رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کا اثر در حقیقت صرف 12 فی صد ہوتا ہے جب کہ کیپسٹی چارجز کی مد میں 31 فی صد قیمت ادا کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ کیپسٹی پیمنٹس وہ ادائیگی ہے جس میں پاکستان کی کل پیداواری صلاحیت کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔
پیداواری استعداد بہت زیادہ لیکن۔۔۔
پاکستان میں اس وقت 44 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد ہے۔
سخت گرمیوں میں بھی پاکستان میں بجلی کا زیادہ سے زیادہ استعمال صرف 25 ہزار میگاواٹ تک ہے۔
پاکستان میں اپنی طلب سے کئی گنا زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن پاکستان میں موجود ناقص ڈسٹری بیوشن نظام اور پرانی سپلائی لائنز کی وجہ سے گرمیوں کے موسم میں بھی مشکلات رہتی ہیں اور ملک کے ایک بڑے حصے کو کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سامنا ہوتا ہے۔
پاکستان گرمیوں کے پیک سیزن میں صرف 25 ہزارمیگاواٹ بجلی استعمال کرتا ہے جب کہ عام دنوں میں 18 سے 20 ہزار میگاواٹ بجلی کی طلب ہوتی ہے۔ لیکن اس زیادہ پیداواری استعداد کی ادائیگی کئی گنا زیادہ کرنی پڑتی ہے۔
اس صورتِ حال میں بجلی پیدا کرنے والےکارخانوں کا گردشی قرضہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔
بجلی کے بل کیسے کم ہوسکتے ہیں؟
اس بارےمیں مختلف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت بجلی کی زائد قیمت کی بڑی وجہ کیپسٹی پیمنٹس اور بھاری ٹیکس ہیں۔ ان میں کمی سے عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔
ماہرِ معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ اس وقت بجلی کے بلز میں 31 فی صد مختلف حکومتی ٹیکس ہیں۔ اگر ان ٹیکسوں میں کمی کی جائے تو بجلی کے بل کم ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر فرخ سلیم کاکہنا تھا کہ حکومت ان کم ہونے والے ٹیکسز کو ڈائریکٹ ٹیکس لگا کر پورا کرسکتی ہے۔
معاشی تجزیہ کار خاقان نجیب نے نجی نشریاتی ادارے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بلوں میں ایک حصہ 18 فی صد جی ایس ٹی کا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے تحت18 فی صد جی ایس ٹی بلوں پر وصول ہو رہے ہیں جو بہت زیادہ ہے۔ اگر اس بارے میں آئی ایم ایف حکام کے ساتھ بات چیت کی جائے تو اس میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
ملک بھر میں مظاہرے
مہنگی بجلی اور زائد بلوں کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مقامی میڈیا میں یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر مظاہرے ایسے ہی جاری رہے اور عوام نے بل جمع نہ کرائے تو حکومت کی معاشی مشکلات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔
اس وقت مظاہروں کی وجہ سے بجلی کمپنیاں اور ان کے ملازمین بھی خوف کا شکار ہیں۔ اسلام آباد، ملتان، لاہور، پشاور اور اور دیگر تقسیم کار کمپنیوں نے اپنے عملے کی حفاظت کے لیے نگراں صوبائی حکومتوں سے پولیس کی سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
ملتان سمیت بعض علاقوں میں بجلی کمپنیوں کے ملازمین کو سرکاری گاڑیاں دفاتر سے باہر لے جانے سے روک دیا گیا ہے کہ کہیں وہ عوام کے غیض و غضب کا نشانہ نہ بن جائیں۔
اطلاعات کےمطابق کئی کمپنیوں کے میٹر ریڈرز اور بجلی منقطع کرنے کے لیے جانے والے عملے نے بھی کام کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوں میں اضافے کی وجہ سے وہ عوام کے غصے کا نشانہ بن سکتے ہیں لہٰذا وہ اپنے تحفظ کے پیش نظر یہ ڈیوٹی سرانجام نہیں دیں گے۔
کراچی، اسلام آباد، لاہور، ملتان، رحیم یار خان، کوئٹہ، پشاور، حیدر آباد سمیت ملک کے بیشتر چھوٹے بڑے شہروں میں بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔
اسلام آبادمیں اتوار کو جماعت اسلامی نے احتجاج کیا جس میں سڑکوں کو بند کرنے پر 12رہنماؤں سمیت سینکڑوں افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔ جماعتِ اسلامی نے آئندہ ماہ کے آغاز میں بجلی کے زائد بلوں کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا بھی اعلان کیا ہے۔
مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج کے دوران ملک کے مختلف مقامات پر بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے اہلکاروں پر تشدد کی ویڈیوز بھی سامنے آ رہی ہیں۔
زائد بلوں اور مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج میں عام شہریوں اور تاجر کی جانب سے بجلی کے بل جلائے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سمیت ملک کے کئی علاقوں میں مساجد میں بل جمع نہ کرانے کے اعلانات بھی کیے گئے ہیں۔
نگراں حکومت کے اقدامات
پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے بجلی کے متعلقہ اداروں کو آئندہ دو روز میں بجلی کے زائد بلوں میں کمی کے لیے ٹھوس اقدامات مرتب کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں کہ عام آدمی مشکل میں ہو اور افسرشاہی ان کے ٹیکس پر مفت بجلی استعمال کرے۔
نگراں وزیرِ اعظم نے اتوار کو بجلی کے بلوں کے خلاف جاری احتجاج کے سبب خصوصی اجلاس کی صدارت کی جس میں توانائی و بجلی کے نگراں وزیرِ سمیت متعلقہ وزارتوں کے حکام شریک ہوئے اور جولائی کے بجلی کے بلوں میں اضافے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
نگراں وزیرِ اعظم نے اجلاس میں کہا کہ جلد بازی میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے ملک کو نقصان ہو۔ ایسے اقدامات کیے جائیں گے جن سے ملکی خزانے پر اضافی بوجھ نہ ہو اور صارفین کو سہولت ملے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں کہ عام آدمی مشکل میں ہو اور افسر شاہی اور وزیرِ اعظم ان کے ٹیکس پر مفت بجلی استعمال کریں۔ متعلقہ وزارتیں اور متعلقہ ادارے مفت بجلی حاصل کرنے والے افسران اور اداروں کی مکمل تفصیل فراہم کریں۔
اس وقت سوشل میڈیا پر بھی مہم بھی چل رہی ہے جس میں واپڈا سمیت دیگر سرکاری اداروں میں مفت بجلی استعمال کرنے کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ بیورو کریسی اور واپڈا کے افسران کے بل عوام کیوں ادا کریں؟
فورم