اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق ایران نےیورینیم کی افزودگی کی رفتار اس حد تک سست کردی ہے، جس کی جوہری ہتھیار بنانے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔
ایسے ممالک جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لئے کوشاں ہیں، یا ان کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں، آزاد دنیا خاص طور پر مغربی ممالک کے لئے ایک بڑی پریشانی کا سبب ہیں.خاص طور پر اس حوالے سے بھی خطرے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ جوہری ہتھیار یا وہ مواد جن سے یہ ہتھیار تیار کئے جاتے ہیں، دہشت گرد گروپوں کے ہاتھوں میں نہ پہنچ جائیں۔ اور اسی لئے ایسے ملکوں کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔
ایران کے جوہری ہتھیاروں کے مبینہ پروگرام کے بارے میں بھی اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور اسے ان ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے کے لیے ہی بڑی طاقتوں اور ایران کے درمیان2015 میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔اس معاہدےسے امریکہ دو ہزار اٹھارہ میں اس وقت الگ ہو گیا تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے۔ اور اب اس معاہدے کی تجدید کی کوششیں جاری ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی نے اس بارے میں اقوام متحدہ کے جوہری امور پر نظر رکھنے والے ادارے کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران نےاس درجے کی یورینیم کی افزودگی کی رفتار سست کردی ہے جو تقریبا جوہری ہتھیار بنانے کےلئے مطلوبہ کوالٹی کے قریب ہوتی ہے۔ اور اے پی کا، جس نے یہ رپورٹ دیکھی ہے، کہنا ہے کہ یہ اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ تہران، برسوں کے تناؤ کےبعد اب امریکہ کے ساتھ کشیدگیوں کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ خفیہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب کہ امریکہ اور ایران قیدیوں کے تبادلے اور جنوبی کوریا میں ایران کے اربوں ڈالر کے منجمد اثاثے واگذار کرنے کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ تاہم اس سب کے باوجود انٹرنیشنل انسپکٹرز نے ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی کی کوشش میں نئے چیلنجوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران کے پاس ایک سو اکیس اعشاریہ چھ کلو گرام یعنی دو سو اڑسٹھ پونڈ یورینیم ساٹھ فیصد تک افزودہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایندھن کا اس کا ذخیرہ دو ہزار اکیس سے سست ترین رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ کیونکہ مئی کے مہینے میں آنے والی رپورٹ کے مطابق یہ ذخیرہ ایک سو چودہ کلوگرام یا ڈھائی سو پونڈ سے کچھ ہی زیادہ تھا۔
ساٹھ فیصد افزودہ یورینیم، نوے فیصد افزودگی کی اس سطح سے بس کچھ ہی دور ہوتی ہے، جس کی ہتھیار بنانے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔
ایران، عرصہ دراز سے اس بات کی تردید کرتا آرہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے۔ حالانکہ جوہری توانائی کے بین الا اقوامی ادارے یا آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ کر لے تو اسکے پاس کئی جوہری بم بنانے کے لئے کافی افزودہ یورینیم موجود ہے۔
نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ایرانی مشن نے اس پر کسی تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
(اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)
فورم