رسائی کے لنکس

چلی میں فوجی بغاوت کے 50 سال: ’صدر آخری وقت تک سمجھتے رہے کہ جنرل ان کا آدمی ہے‘


چلی کے سابق فوجی حکمران جنرل آگسٹو پنوشے (فائل فوٹو)
چلی کے سابق فوجی حکمران جنرل آگسٹو پنوشے (فائل فوٹو)

پچاس برس قبل 11 ستمبر 1973 کو چلی کی فوج صدارتی محل کا گھیراؤ کر چکی تھی اور فوج کے سربراہ آگسٹو پنوشے نے منتخب صدر سلواڈور آلندے کا تختہ الٹنے کا اعلان کر دیا تھا۔

جنرل پنوشے اس کے بعد تقریباً 17 سال اقتدار پر قابض رہے۔ ان کے دور میں ہزاروں سیاسی مخالفین کو قتل کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کئی سیاسی مخالفین لاپتا کر دیے گئے۔ پیر کو چلی میں ان کی فوجی بغاوت کو 50 سال مکمل ہو رہے ہیں تاہم آج بھی چلی میں کئی لوگ پنوشے کے دورِ اقتدار کو سیاہ دور تسلیم نہیں کرتے۔

چلی میں منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی کامیابی کو اس لیے بھی لاطینی امریکہ کی تاریخ میں اہمیت حاصل رہی ہے کہ امریکہ پر اس میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

یہ الزام کتنا درست ہے؟ اور امریکہ کیوں چلی میں حکومت کی تبدیلی کا خواہش مند ہوسکتا تھا؟ ان سوالوں کا جواب جاننے کے لیے چلی میں جاری سیاسی خلفشار کی تاریخ پر ایک نظر ضروری ہے۔

چلی کی بدلتی سیاست پر امریکہ کی تشویش

بحرِ اوقیانوس اور بحرِ الکاہل کے درمیان سمندری راستوں پر واقع ہونے کی وجہ سے چلی کو لاطینی امریکہ کا ایک اہم ملک تصور کیا جاتا ہے۔ ارجنٹینا، بولیویا اور پرو سے ملحق لاطینی امریکہ کے جنوب میں ایک لمبی پٹی پر واقع چلی میں تانبے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد چلی کے جغرافیے اور قدرتی وسائل کی وجہ سے امریکہ اس کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتا تھا۔ تاہم دونوں کے تعلقات میں 1960 کی دہائی کے دوران کشیدگی بڑھنا شروع ہوئی۔

امریکہ کو چلی میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور خاص طور پر تانبے کی صنعت کو قومیانے کے زور پکڑتے مطالبے پر شدید تحفظات لاحق تھے۔ اسی لیے 1961 میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے جنوبی نصف کرے میں سوشلزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ’الائنس آف پروگریس‘ منصوبے پر دستخط کیے تھے۔

اس منصوبے کے تحت لاطینی امریکی ممالک میں انفراسٹرکچر، تعلیم اور جمہوری طرزِ حکومت کی بہتری کے لیے امداد فراہم کی گئی۔ چلی اس کے تحت سب سے زیادہ امداد حاصل کرنے والے ممالک میں شامل تھا۔

امریکی حکومت دو بنیادی اسباب سے چلی کی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو براہِ راست اور خفیہ طور پر مدد فراہم کر رہی تھی۔

سب سے پہلی وجہ تو یہ تھی کہ چلی میں حکومت تانبے کی کان کنی کی دو بڑی کمپنیوں اینا کونڈا اور کینیکوٹ کو قومیانے پر کام کر رہی تھی۔ ان دونوں کی ملکیت امریکہ میں قائم کارپوریٹس کے پاس تھی۔

دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں امریکہ کو لاطینی امریکہ میں سوشلسٹ نظریات کے فروغ پر تشویش تھی اور عین اسی وقت چلی میں سوشلسٹ قوتیں مضبوط ہو رہی تھیں۔ ان سیاسی قوتوں کا راستہ روکنے کے لیے امریکہ نے چلی کی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی سی) کو بھی براہِ راست مدد فراہم کی تھی۔

ستمبر 1964 میں ہونے والے انتخابات میں پی ڈی سی کے امیدوار ایڈوارڈو فرائی نے تیسری بار بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ’فرنٹ فار پاپولر ایکشن‘ کے امیدوار سلواڈور آلندے کو شکست دی۔

ستر کی دہائی میں مارکسسٹ لیڈر سلواڈور آلندے چلی میں ایک مقبول لیڈر کے طور پر ابھر رہے تھے۔
ستر کی دہائی میں مارکسسٹ لیڈر سلواڈور آلندے چلی میں ایک مقبول لیڈر کے طور پر ابھر رہے تھے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے آفس آف ہسٹورین کے مطابق انتخابی مہم کے لیے امریکہ نے فرائی کو مالی مدد فراہم کی تھی۔ حکومت میں آںے کے بعد ایڈوارڈو فرائی کی حکومت نے ہاؤسنگ، زراعت اور تعلیم کے شعبے میں اصلاحات متعارف کرائیں۔

فرائی نے ایناکونڈا کے ساتھ تانبے کی کانوں سے متعلق ایک معاہدہ بھی کیا۔ تاہم اس معاہدے پر ان کے حامیوں نے بھی کڑی تنقید کی جس کی وجہ سے 1970 کے انتخابات میں نیشنلائزیشن انتخابی مہم کا سب سے اہم موضوع بن گیا۔

اس وقت تک چلی میں نئی سیاسی صف بنی ہوچکی تھی۔ 'ایف آر اے پی' کی جگہ بائیں باوزو کا نیا اتحاد 'پاپولر یونٹی' بن چکا تھا۔ اس کے صدارتی امیدوار بدستور سلواڈور آلندے تھے جو چلی میں لیفٹ کے مقبول ترین لیڈر بن چکے تھے۔ ان کا مقابلہ 'پی ڈی سی' اور چلی کی 'نیشنل پارٹی' کے ساتھ تھا۔

آفس آف ہسٹورین کے مطابق امریکہ الیکشن میں آلندے کا راستہ روکنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے اس نے خفیہ طور پر ان کے مخالفین کو مالی معاونت بھی فراہم کی۔ امریکی مدد کسی حد تک انتخابات پر اثرانداز ہوئی۔ تاہم آلندے پھر بھی ایک تہائی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

ان کے مقابلے میں 'پی ڈی سی' سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور سابق صدر خورخے الیساندرے کو حاصل ہونے والے ووٹ صرف ایک فی صد کم تھے۔ اس لیے صدر کے انتخاب کا معاملہ اب 24 اکتوبر 1970 کو چلی کی کانگریس میں ہونے والی رائے شماری سے ہونا طے پایا۔

اس وقت تک امریکہ میں رچرڈ نکسن کی حکومت آچکی تھی اور وہ کسی صورت چلی میں بائیں بازو کی حکومت کا قیام روکنا چاہتے تھے۔ چلی کی حکومت اور امریکی کمپنیاں بھی آلندے کو صدر نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ اس لیے چلیئن کانگریس میں رائے شماری سے قبل ہی کسی بڑی سیاسی تبدیلی کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔

انتخابی نتائج کے بعد چلی کی فوج اقتدار سنبھالنے کے معاملے پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ جنرل روبرٹو ویاؤ اور جنرل کامیلو ویلنزویلا اقتدار پر قبضے کے حامی تھے جب کہ جنرل رینے شنائڈر اور ان کے حامی فوجی افسران انتخابات پر اثرا انداز ہونے کی کسی کوشش کو خلافِ آئین سمجھتے تھے۔

جنرل شنائڈر کے مؤقف کی وجہ سے ان کے مخالف دونوں جنرلوں نے انہیں اغوا کرنے کی کئی کوششیں کیں۔ تاہم انتخابات سے صرف دو روز قبل 22 اکتوبر کو ایسی ہی ایک کوشش میں جنرل شنائیڈر شدید زخمی ہوگئے اور کچھ روز بعد ان کی موت واقع ہوگئی۔

سال 1968 میں امریکہ کے صدر منتخب ہونے والے رچرڈ نکسن ہر صورت چلی میں بائیں بازو کی حکومت کا قیام روکنا چاہتے تھے۔
سال 1968 میں امریکہ کے صدر منتخب ہونے والے رچرڈ نکسن ہر صورت چلی میں بائیں بازو کی حکومت کا قیام روکنا چاہتے تھے۔

اس کے بعد چلی کی فوج نے کانگریس میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں مداخلت سے باز رہنے کا فیصلہ کیا اور 24 اکتوبر کو آلندے بھارتی اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے اور تین نومبر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

امریکہ کو خطرہ تھا کہ آلندے اقتدار میں آنے کے بعد چلی میں کمیونسٹ انقلاب کی راہ ہموار کریں گے۔ اسی لیے نکسن حکومت نے چلی سے تعلقات میں سرد مہری اختیار کرلی۔ امریکی پالیسی سازوں نے چلی کے لیے قرضوں اور مالی مدد کی راہیں محدود کرنے کے لیے بھی کام شروع کر دیا۔

توازن بگڑنے لگا۔۔۔

اقتدار میں آتے ہی آلندے نے چلی کے آئین میں ترمیم کر دی جس کے نتیجے میں حکومت کو کان کنی کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کے اثاثے ضبط کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔

چلی کی کانگریس نے 11 جوالائی 1971 کو نیشنلائزیشن کے عمل کو تیز کرنے کے لیے ایک اور آئینی ترمیم منظور کرلی۔ اس ترمیم میں امریکی کمپنیاں قومیانے کے لیے ایک منفرد منصوبے کی منظوری دی گئی تھی۔ ترمیم میں کہا گیا تھا کہ چلی میں کان کنی کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں نے اسی شعبے کی دیگر کمپنیوں کی بہ نسبت غیر معمولی منافع کمایا ہے اور اسی بنیاد پر نیشنلائزیشن کے وقت امریکی کمپنیوں کو ادائیگیاں نہیں کی گئیں۔

اس کے علاوہ چلی کی حکومت نے امریکی کمپنی 'انٹرنیشنل ٹیلی فون اور ٹیلی گراف' کے اکثریتی شیئر بھی اپنی ملکیت میں لے لیے۔ اس طرح نیشنلائزینش کا معاملے پر امریکہ اور آلندے حکومت کے درمیان اختلاف بڑھتے چلے گئے۔

آلندے نے اقتدار میں آنے کے بعد تعلیم، زراعت، صحت اور کاروباروں کو قومیانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی۔ تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کیا تاہم کمپنیوں کو قیمتیں برقرار رکھنے کا پابند کیا گیا۔ زرعی شعبے میں بھی کئی مراعات متعارف کرائیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے ابتدائی طور پر مہنگائی قابو میں رہی لیکن ان کی معاشی کامیابیاں عارضی ثابت ہوئیں۔

آلندے کے اصلاحات سے ابتدائی طور پر چلی میں جو معاشی خوش حالی آئی تھی اس نے وہاں کنزیومرازم کو بڑھاوا دیا جس کی وجہ سے چلی کی درآمدات میں اضافہ ہوگیا۔ اسی دور میں تانبے کی عالمی قیمیتں کم ہونا شروع ہو گئیں جس کی وجہ سے چلی کی ادائیگیوں کا توازن بگڑنے لگا۔ نیشنلائزیشن کی پالیسی کی وجہ سے چلی میں بیرونی سرمایہ کاری اور مالی امداد کے ذرائع ویسے ہی محدود ہونا شروع ہو چکے تھے۔

اپنے نظریاتی جھکاؤ کی وجہ سے آلندے کیوبا، چین اور مشرقی جرمنی سے تعلقات بڑھا رہے تھے۔ آلندے کی اصلاحات پر چین کے وزیرِ اعظم چو این لائی نے بھی انہیں خبردار کیا کہ وہ بہت تیزی سے خالص کمیونزم کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن آلندے کی رفتار میں کمی نہیں آئی۔

ان اسباب سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کی وجہ سے آلندے کے خلاف اندرونِ ملک احتجاج اور ہڑتالوں کو آغاز ہو گیا۔

فوج کی کمان میں تبدیلی

صدر آلندے کے خلاف احتجاج 1972 میں شدت اختیار کر گیا۔ ایسے میں امریکہ نے بھی چلی میں قیامِ امن اور قانون کی حکمرنی پر زور دینا شروع کر دیا۔ بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی اور داخلی بحرانوں کے باعث صدر آلندے کے سیاسی مخالفین بھی منظم ہو رہے تھے۔ جہاں سیاسی بحران میں اب تک غیر جانب دار رہنے والی فوج کے ایک حصے میں بے چینی بڑھ رہی تھی وہیں نئی سیاسی صف بندی بھی ہو رہی تھی۔

مارچ 1972 میں چلی کے ایوانِ زیریں ’چیمبر آف ڈپٹیز‘ کے الیکشن ہوئے۔ الیکشن سے پہلے ہی صدر آلندے کی 'یونٹی پارٹی' کی اتحادی 'کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی' نے اپنی راہیں جدا کرلیں اور 'نیشنل پارٹی' کے ساتھ مل کر 'کنفیڈریشن آف ڈیموکریسی' کے نام سے اتحاد بنا لیا۔

الیکشن میں اپوزیشن اتحاد 'چیمبر آف ڈپٹیز' میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوگیا لیکن اسے سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہو سکی۔ چلی میں سینیٹ صدر کا انتخاب کرتی تھی اس لیے انتخاب میں اپنی پارٹی کی شکست کے باوجود صدر آلندے کا اقتدار برقرار رہا۔

انتخابات کے بعد صدر آلندے کے خلاف احتجاج پرتشدد ہو گئے۔ ملک میں ہر روز مظاہروں اور ہڑتالوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اسی بے یقینی کے دور میں چلی کی فوج کے ایک افسر لیفٹننٹ کرنل روبرٹو سوپر نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔

صدر آلندے نے فوج میں بغاوت کی اس کوشش کے بعد فوج کے ایک جنرل کارلوس پریٹ کو مظاہروں اور ملکی حالات پر قابو پانے کا ٹاسک دیا۔ پریٹ اس سے قبل فوجی بغاوت ناکام بنانے میں کردار ادا کرچکے تھے۔ تاہم جب انہوں نے سیاسی بحران پر قابو پانے کے لیے کردار ادا کرنا شروع کیا تو فوج میں ان کی حمایت تیزی سے کم ہوتی گئی۔

ایسے میں صدر آلندے نے ایک بار پھر فوج کی کمان تبدل کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کی نگاہِ انتخاب اپنی ہی کابینہ میں وزیرِ دفاع رہنے والے جنرل آگسٹو پنوشے پر آ کر رکی۔ صدر آلندے نے 24 اگست 1973 کو فوج کی کمان جنرل پنوشے کے حوالے کر دی۔

پنوشے کے بارے میں اس وقت تک فوج میں عام خیال تھا کہ یہ آلندے کے قریبی آدمی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چلی کی کانگریس میں صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کو روکنے سے پہلے وہ ان فوجی افسران میں شامل تھے جنھوں نے اتنخاب کو روکنے کی مخالفت کی تھی۔

وہ سیاسی بحران سے لاتعلقی اختیار کرنے والے جنرل شنائیڈر کے چیف آف اسٹاف بھی رہے تھے۔ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے دوران پنوشے مسلسل آلندے کی حکومت کی حمایت کا اظہار کرتے آئے تھے۔ لیکن فوج کی کمان سنبھالتے ہی ان کی رائے تبدیل ہونے لگی۔

چلی کی فوج میں جنرل پنوشے کو صدر آلندے کا آدمی سمجھا جاتا تھا۔
چلی کی فوج میں جنرل پنوشے کو صدر آلندے کا آدمی سمجھا جاتا تھا۔

’اب کوئی بات نہیں ہوگی‘

پارلیمانی انتخابات کے بعد 'چیمبر آف ڈپٹیز' میں اکثریت رکھنے والی اپوزیشن جماعتوں نے صدر آلندے کے خلاف سرکاری وسائل کی لوٹ مار اور آئینی حدود سے تجاوز کے الزامات عائد کرنا شروع کر دیے۔ ایک موقعے پر اپوزیشن کی جماعتوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی بد امنی کو روکنے کے لیے فوج کو مداخلت کی دعوت بھی دے ڈالی۔

آگسٹو پنوشے کی سوانح حیات پر اشاعتی ادارے 'چارلز ریور ایڈیٹرز' کی مرتب کردہ کتاب ’دی لائف اینڈ لیگیسی آف چلیز کونٹروورشل ڈکٹیٹر‘ کے مطابق جنرل پنوشے کو یہ خوف لاحق تھا کہ ملک میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کہیں خانہ جنگی میں تبدیل نہ ہو جائے۔

اس کتاب کے مطابق مارکسسٹ نظریات کے حامل آلندے کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے کمیونسٹ ممالک اور امریکہ کے درمیان چلی میں ایک سرد جنگ شروع ہو چکی تھی۔ اس دوران پنوشے کو یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ کیوبا نے آلندے کے حامیوں کو مسلح کرنے کے لیے خفیہ طور پر ہتھیار فراہم کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ان اطلاعات نے پنوشے کو لاحق خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت کے خدشات میں اضافہ کر دیا۔

تاہم بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مؤرخین کی رائے ہے کہ آلندے نے کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسترو کے مشورے کے باوجود اپنے حامیوں کو مسلح کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

اسی طرح امریکہ پر خفیہ ادارے 'سی آئی اے' کے ذریعے چلی کی فوج میں بغاوت کو ہوا دینے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔

چلی میں نامہ نگار رہنے والے امریکی صحافی جوہن ڈنگز چلی کی فوجی بغاوت پر اپنی کتاب ’کنڈور اییرز‘ میں لکھتے ہیں کہ 1970 میں امریکہ نے صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں آلندے کے انتخاب کو روکنے کی کوشش کی تھی جو فوج میں آلندے کی مخالفت کرنے والوں کے لیے تقویت کا باعث بنی۔

خارجی اسباب کے علاوہ بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم اور سنگین ہوتے معاشی بحران کے باعث چلی کی فوج نے بھی پنوشے پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا تھا۔ بالآخر جنرل پنوشے نے چلی میں جاری بحران کے دوران 11 ستمبر 1971 کو حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کیا اور چلی کے صدارتی محل کے گھیراؤ اور اس پر زمینی اور فضائی بمباری کا حکم دے دیا۔

صدر آلندے کے ایک دیرینہ ساتھی ایریئل دورفمین کا کہنا ہے کہ جب فوج نے صدارتی محل کا گھیراؤ کیا تو وہ اس وقت وہاں موجود تھے۔ وہاں کسی کو اس کا یقین نہیں تھا کہ پنوشے بھی کبھی صدر آلندے کو دھوکا سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم اس وقت بھی یہی سمجھتے تھے کہ جنرل پنوشے صدر کے آدمی ہیں لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ یہ ہماری غلط فہمی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ تختہ الٹنے میں پنوشے کا ساتھ دینے والے وائس ایڈمرل کارواہال صدر آلندے سے رابطے میں تھے۔ ان کے ذریعے صدر نے جب پنوشے سے رابطہ کیا تو جنرل نے دو ٹوک جواب دیا، "غیر مشروط طور پر سرینڈر کرنا پڑے گا۔ کوئی بات چیت نہیں۔ غیر مشروط سرینڈر۔"

جنرل پنوشے کے حکم پر 11 ستمبر 1973 کو چلی کی فوج نے صدارتی محل کا گھیراؤ کرلیا۔
جنرل پنوشے کے حکم پر 11 ستمبر 1973 کو چلی کی فوج نے صدارتی محل کا گھیراؤ کرلیا۔

اس پر ایڈمرل کارواہل نے کہا کہ آلندے صرف یہ ضمانت چاہتے ہیں کہ انہیں بیرونِ ملک جانے کا محفوظ راستہ دے دیا جائے۔ پنوشے نے ہامی بھرلی لیکن ساتھ ہی ہنستے ہوئے کہا کہ آلندے کی موت میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

فوج کے محاصرے کے دوران ہی چلی کے ریڈیو پر صدر آلندے کا ایک مختصر پیغام نشر ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ایک دن ایک ایسی راہ کھلے گی جس سے گزر کر آزاد لوگ ایک بہتر سماج تعمیر کر سکیں گے۔ اس پیغام کے نشر ہونے کے بعد آلندے نے سر پر گولی مار کر خود کُشی کرلی اور اپنے آپ کو فوج کے حوالے نہیں کیا۔

قومی مفاد میں۔۔۔

صدارتی محل پر چڑھائی کے بعد جنرل آگسٹو پنوشے نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ داخلی انتشار اور سلواڈور آلندے کی مارکسی حکومت کی لوٹ مار سے ملکی سالمیت کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے افواج نے آج حب الوطنی کے تحت اقتدار سنبھال لیا ہے۔

جنرل پنوشے نے چلی کی عدلیہ کو معطل کر دیا اور اعلان کیا کہ پارلیمنٹ تاحکمِ ثانی اپنا کام جاری رکھے گی۔ اس طرح چلی سے کمیونسٹ نواز حکومت ختم ہوگئی۔ 1974 میں جنرل پنوشے ملک کے صدر بن گئے۔ کمیونزم سے مقابلے کے نام پر ان کے 17 سالہ دور میں تین ہزار سے زائد افراد کو تشدد، قتل اور جبری گمشدگی جیسی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

صحافی جوہن ڈنگز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پنوشے نے اقتدار سنبھالنے کے بعد فوج کے اندر معزول صدر آلندے کے حامی جنرلوں، کئی حکومتی عہدے داروں اور ججوں کو یا تو معزول کردیا یا ان کی بڑی تعداد منظرِ عام سے غائب کر دی گئی۔

جوہن ڈنگز کے مطابق پنوشے کی حکومت نے اپنے مخالفین کو دہشت گرد قرار دیا اور امریکہ سمیت دیگر ممالک میں سابق صدر آلندے کے حامیوں کو قتل تک کرایا۔ وہ لکھتے ہیں کہ صدر آلندے کے دور میں امریکہ کی جانب سے چلی کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا جاتا تھا لیکن پنوشے کے دور میں ہونے والی خلاف ورزیوں پر ایک طرح سے خاموشی اختیار کرلی گئی۔

اس لیے امریکہ پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے جنوبی امریکہ میں کمیونزم کا راستہ روکنے کے لیے جنرل پنوشے کی فوجی بغاوت کو مدد فراہم کی۔

اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد 1974 میں جنرل پنوشے ملک کے صدر بن گئے۔
اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد 1974 میں جنرل پنوشے ملک کے صدر بن گئے۔

امریکہ کی مداخلت؟

امریکہ محکمۂ خارجہ کے ’آفس آف ہسٹورین‘ کے مطابق امریکہ کے چلی میں خفیہ طور اقدامات کی طویل تاریخ ہے۔ امریکہ نے 1970 کے انتخاب میں آلندے کے مخالفین کو مالی مدد فراہم کی، چلی میں آلندے کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی اور 1970 میں چلی میں فوجی بغاوت کی مدد پر غور بھی کیا۔

'آفس آف ہسٹورین' کے مطابق 1975 میں چلی میں امریکی کارروائیوں سے متعلق سینیٹ کی ایک کمیٹی نے 1960 اور 1970 کی دہائی کے دوران چلی کے داخلی امور میں امریکہ کی خفیہ کارروائیوں کا جائزہ لیا۔ تاہم کمیٹی کو اس کے بہت کم شواہد ملے کہ امریکہ نے جنرل پنوشے کی فوجی بغاوت کو خفیہ مدد فراہم کی تھی۔

جوہن ڈنگز بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ جنرل پنوشے کی بغاوت میں امریکہ کے براہِ راست کردار کے ٹھوس شواہد اگرچہ دستیاب نہیں لیکن ڈی کلاسیفائی کی گئی امریکی دستاویزات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امریکہ چلی میں فوجی بغاوت سے متعلق پہلے سے آگاہ تھا اور اس نے اس اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے بقول بعد ازاں پنوشے کے اقدامات پر امریکہ نے جو رویہ اختیار کیا، اسے خاموش تائید سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

پنوشے کے لیے بدلتے حالات

جنرل پنوشے کے دور میں ریاستی جبر کے باوجود چلی میں کان کنی سمیت مختلف شعبوں میں قائم مزدور یونینز کی قوت برقرار تھی۔ مزدور یونینز کے احتجاج میں ’کنفیڈریشن آف کاپر ورکرز‘ مرکزی کردار ادا کررہی تھی۔ اس تنظیم نے 1983 میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر فوجی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر دی۔ سینکڑوں گرفتاریوں اور متعدد ہلاکتوں کے باوجود یہ تحریک زور پکڑتی گئی۔ یہاں تک کہ 1985 میں فوجی حکومت نے جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا آغاز کر دیا۔

پنوشے 1980 کے آئین میں آٹھ سال بعد صدارت کے لیے ریفرنڈم کی شق شامل کر چکے تھے اور اپوزیشن کی تحریک کے بعد مسلسل ان پر عوام سے اپنی صدارت سے متعلق رائے طلب کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔

سن 1986 میں ملگ گیر ہڑتالوں اور مظاہروں کی وجہ سے دنیا چلی کے بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کی جانب متوجہ ہونے لگی۔ ستمبر 1986 میں پنوشے پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس کے بعد فوجی حکومت کے خلاف پرامن جدوجہد کرنے والی قوتوں کی حمایت بھی متاثر ہوئی۔

تاہم پنوشے کو اندازہ ہوگیا کہ اقتدار پر ان کی گرفت کم زور پڑ رہی ہے۔ اس لیے انہوں نے اعلان کر دیا کہ 1988 میں ان کے صدارت پر برقرار رہنے یا نہ رہنے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد ہوگا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کے بدلتے حالات نے بھی پنوشے کو جمہوریت کی بحالی پر مجبور کیا۔ 1980 کی دہائی کے آخر تک امریکہ کی ترجیحات تبدیل ہوچکی تھیں اور اس کی توجہ لاطینی امریکہ میں کمیونزم کے پھیلاؤ سے ہٹ کر دیگر مسائل کی طرف منتقل ہو چکی تھی۔

مقبول ڈکٹیٹر

چلی میں 1988 میں ہونے والے صدارتی ریفرنڈم میں عوام کے سامنے سوال یہ تھا کہ کیا آپ آگسٹو پنوشے کو مزید آٹھ سال کے لیے چلی کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس ریفرنڈم میں 56 فی صد رائے دہندگان نے اس سوال کا جواب ’نہیں‘میں دیا۔ اس طرح پنوشے کا تقریباً ساڑھے 16 سالہ دورِ اقتدار ختم ہوا اور اگلے برس چلی میں عام انتخابات ہوگئے۔

چلی میں رواں برس ہونے والے ایک سروے میں 36 فی صد افراد نے ملک کو ’مارکسزم سے آزاد‘ کرانے کی بنیاد پر جنرل پنوشے کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا۔
چلی میں رواں برس ہونے والے ایک سروے میں 36 فی صد افراد نے ملک کو ’مارکسزم سے آزاد‘ کرانے کی بنیاد پر جنرل پنوشے کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا۔

چلی میں جمہوریت کے بحالی کے بعد پنوشے تقریباً 16 سال تک زندہ رہے اور صدارت سے علیحدگی کے بعد بھی اقتدار کی راہ داریوں سے دور نہیں رہے۔ 1998 میں وہ فوج کے کمانڈر ان چیف بنے اور اس کے بعد انہیں تاحیات سینیٹر بنادیا گیا اور اس کے لیے آئین میں خصوصی ترمیم کی گئی۔

اس دوران ان پر اکتوبر 1998 میں دہشت گردی اور نسل کشی کے الزامات کے تحت برطانیہ میں ایک مقدمہ بھی چلا اور نظر بند بھی کیا گیا۔ تاہم 2000 میں پنوشے واپس چلی آگئے۔

پنوشے 2002 میں سینیٹرشپ سے مستعفی ہوگئے اور 2006 میں چلی ہی میں ان کا انتقال ہوا۔ لیکن ان کے خلاف چلی کی کسی عدالت میں کوئی مقدمہ نہیں چلا۔

آج جب چلی میں پنوشے کی فوجی بغاوت کو نصف صدی مکمل ہو گئی ہے تو اب بھی چلی میں ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق چلی میں رواں برس ہونے والے ایک سروے میں 36 فی صد افراد نے چلی کو ’مارکسزم سے آزاد‘ کرانے کی وجہ سے پنوشے کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ تاہم 42 فی صد کا خیال تھا کہ پنوشے کی آمریت نے چلی میں جمہورت کو تباہ کر دیا۔

سال 2022 میں طلبہ کی ایک مہم کے نتیجے میں گیبریئل بورک چلی کے کم عمر ترین صدر منتخب ہوئے۔ اس تحریک نے پنوشے کے دورِ آمریت میں اختیار کی گئی معاشی پالیسیوں کے باعث سماجی عدم مساوات اور جمہوری اقدار ختم ہونے جیسے مسائل کو اجاگر کیا۔

چلی میں رائے عامہ پر کام کرنے والے ایک ادارے کی سربراہ مارتا لاگوس کا کہنا ہے کہ پنوشے لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔ ان کے بقول مغربی دنیا کی حالیہ تاریخ میں وہ واحد آمر ہیں جن کے اقتدار پر قبضے کے 50 برس بعد بھی ان کے ملک کی 30 سے 40 فی صد آبادی ان کی حامی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG