اسرائیل کے انٹیلی جینس ادارے موساد کے ایک سابق سربراہ نے بدھ کے روز دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اسرائیل مغربی کنارے میں نسل پرستی کا نظام نافذ کر رہا ہے۔ ان کے اس خیال کی توثیق کرنے کے لیے ان ریٹائرڈ اہل کاروں کی ایک چھوٹی لیکن بڑھتی ہوئی تعداد شامل ہے جو اسرائیلی صورت حال اور بین الاقوامی سفارت کاری کےشعبے سے منسلک رہے ہیں ۔
تامیر پرڈو ایسے سابق سینئر اہل کاروں کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا سلوک نسل پرستی کے مترادف ہے۔ اپارتھیڈ یا نسل پرستی کا یہ نکتہ نظر جنوبی افریقہ میں نسلی علیحدگی کے نظام کا حوالہ ہے جو 1994 میں ختم ہوا تھا۔
اسرائیل اور بیرون ملک انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیموں اور فلسطینیوں نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے پر اس کے 56 سالہ قبضے کوایک نسل پرستانہ نظام میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو ان کے بقول فلسطینیوں کو دوسرے درجے کے شہری قرار دیتا ہے اور اس نظام کو دریائے اردن کے ذریعے بحیرہ روم میں یہودی تسلط برقرار رکھنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔
سابق اسرائیلی رہنماؤں، سفارت کاروں اور سیکیورٹی اہل کاروں کی ایک قلیل تعداد نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے لیے یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ نسل پرست ریاست بن سکتا ہے۔ لیکن پرڈو نے اس بارے میں واضح بات کی ہے۔ اسرائیل میں پرڈو کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے ان کا بیان خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پرڈو کی تعیناتی کی تھی اور انہوں نے 2011 سے 2016 تک اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا موساد کی سربراہی کرتے ہوئے بھی ان کی سوچ ایسی ہی تھی۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ ملک کو درپیش انتہائی اہم مسائل میں فلسطینیوں کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ نیتن یاہو کے نزدیک ایران کے جوہری پروگرام سے بڑھ کر فلسطینیوں کا معاملہ بڑا خطرہ ہے۔
پرڈو نے کہا کہ موساد کے سربراہ کی حیثیت سےانہوں نے نیتن یاہو کو بار بار خبردار کیا کہ انہیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کر لیں یا پھر یہودیوں کے لیے ریاست کی تباہی کا خطرہ مول لیں ۔
پرڈو گزشتہ ایک سال کے دوران نیتن یاہو اور عدالتی نظام کو از سر نو تشکیل دینے کے لیے ان کی حکومت کے دباؤ کے خلاف بھرپور آواز اٹھانے والے ناقد بن گئے ہیں اور اپنے پرانے باس کو ایسے اقدامات کے لیے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جو ان کے بقول اسرائیل کو ایک آمرانہ نظام کی طرف لے جائے گا۔
اسرائیل کےفوجی کنٹرول کے بارے میں ان کے اس واضح جائزے کی تائید احتجاجی تحریک کے رہنما نہیں کرتے جو عدالتی تبدیلی کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ ان احتجاجی لیڈروں نے اس تشویش کی وجہ سے اس کنٹرول کے بارے میں بات کرنے سے گریز کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں ان کے قوم پرست حمایتی خوفزدہ ہو سکتے ہیں ۔
پرڈو کا بیان اور جائزہ ایک ا یسے وقت پر سامنے آیا ہے جب اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی الٹرا نیشنلسٹ پارٹیوں پر مشتمل حکومت مغربی کنارے کے الحاق کی حمایت کرتی ہےاور اس علاقے پر اسرائیل کی گرفت مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ کچھ وزراء نے مغربی کنارے میں اس وقت مقیم آباد کاروں کی تعداد کو دوگنا کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ یہ تعداد اس وقت پانچ لاکھ ہے۔
نیتن یاہو کی لیکڈ پارٹی نے ایک بیان جاری کیا جس میں پرڈو کےبیان کی مذمت کی گئی ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’ پرڈو اسرائیل اور اسرائیلی فوج کا دفاع کرنے کے بجائے اس کو بدنام کررہا ہے۔ پرڈو تمہیں اس بات پر نادم ہونا چاہیئے۔‘‘
جنوبی افریقہ میں سفید فام بالادستی اور نسلی علیحدگی پر مبنی ایک نظام 1948 سے 1994 تک رائج تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں نےبین الاقوامی فوجی عدالت کے روم سٹیچٹ جیسے بین الاقوامی کنونشنز کے تحت اسرائیل کے بارے میں اپنے نتائج اخذ کیے ہیں۔ اس میں نسل پرستی کی توضیح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے یہ ایک نسلی گروہ کی طرف سے کسی دوسرے نسلی گروہ پر منظم جبر اور تسلط کی صورت سامنے آتی ہے۔
پرڈو نے کہا کہ اسرائیلی شہری ناکہ بندی والی غزہ کی پٹی کو چھوڑ کر ہر جگہ گاڑی چلا سکتے ہیں لیکن فلسطینیوں کو یہ اجازت نہیں کہ وہ ہر جگہ گاڑی چلا سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے میں مروجہ نظام کے بارے میں ان کے خیالات ’’شدید‘‘ نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔‘‘
اسرائیلیوں کو مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہےلیکن وہ پورے اسرائیل اور اسرائیل کے زیر کنٹرول مغربی کنارے کے 60 فیصد حصے میں گاڑی چلا سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کو ملک میں داخل ہونے کے لیے اسرائیل سے اجازت درکار ہوتی ہے اور انہیں مغربی کنارے کے اندر جانے کے لیے اکثر فوجی چوکیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپ اسرائیل کے اندر اوراس سے منسلک مشرقی یروشلم میں امتیازی پالیسیوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں ۔اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کی گئی ہے جس پر 2007 سے حماس عسکریت پسند گروپ کی حکومت ہے جب کہ مغربی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اسرائیل اس علاقے پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔ یہاں پر دو سطحی قانونی نظام برقرار رکھا گیا ہے ۔ اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر اور توسیع کر رہا ہے جنہیں بین الاقوامی برادری کی اکثریت غیر قانونی سمجھتی ہے۔
اسرائیل نسل پرستی کے کسی بھی الزام کو مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے اپنے عرب شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اسرائیل نے 1990 کی دہائی میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کو محدود خودمختاری دی جو مغربی کنارے میں قائم ہے ۔پھر 2005 میں غزہ سے اپنے فوجیوں اور آباد کاروں کو واپس بلا لیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ مغربی کنارہ متنازعہ علاقہ ہےاور اس کی حیثیت کا تعین مذاکرات سے ہونا چاہیئے۔پرڈو نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے اپنے اور فلسطینیوں کے درمیان سرحدیں متعین نہیں کیں تو یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ اسرائیل نے 1967 میں مغربی کنارے ، غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم کے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور ایک وقت آئے گا جب ان علاقوں میں عربوں کی تعداد یہودیوں سے زیادہ ہو جائے گی۔ مسلسل کنٹرول اسرائیل کو ایک مشکل انتخاب پر مجبور کر سکتاہے کہ یا تو وہ آزادی سے محروم فلسطینیوں پر یہودی اقلیت کی حکمرانی کو باضابطہ شکل دے دے یا پھر انہیں ووٹ کا حق دیتے ہوئے تاریخی فلسطین میں یہودی وطن کے خواب کو ممکنہ طور پر ختم کرے ۔پرڈو کا کہنا ہے کہ ’’اسرائیل کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اگر کسی ملک کی سرحدوں کا تعین نہ کیا جائے تو پھر اس کی کوئی حدود نہیں ہوتیں ۔‘‘
اس رپورٹ کی تفصیل ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہے۔
فورم