بھارت میں جاری دنیا کے مضبوط معاشی ملکوں کے اتحاد جی20 کے اجلاس کے پہلے روز ارکان کے درمیان ایک اعلامیے پر اتفاق ہو گیا ہے جس میں ارکان نے یوکرین جنگ کے معاملے پر روس کی مذمت سے گریز کیا ہے۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں دو روزہ جی20 اجلاس کے پہلے روز ہفتے کو وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ ان کی ٹیم کی سخت محنت کے نتیجے میں جی20 سربراہی اجلاس کے اعلامیے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔
اعلامیے میں یوکرین جنگ سمیت عالمی فوڈ سیکیورٹی، توانائی، ماحولیات، صحت اور دیگر مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔
عالمی رہنماؤں نے یوکرین میں فوری طور پر جامع، منصفانہ اور پائیدار امن کے قیام پر زور دیا ہے البتہ اعلامیے میں روس کی مذمت سے گریز کیا ہے۔
اعلامیے پر عالمی رہنماؤں کے اتفاق کو حیران کن قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ اس سے قبل یوکرین معاملے پر جی20 ممالک کے درمیان اختلاف رائے موجود تھا۔
اعلامیے سے قبل یورپی ممالک یوکرین جنگ کے معاملے پر روس کی مذمت پر زور دے رہے تھے جب کہ بعض ملکوں کا مطالبہ تھا کہ وسیع تر معاشی مسائل پر توجہ دی جائے۔
اعلامیے میں رکن ممالک سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ علاقائی امن کے لیے طاقت کے استعمال سے گریز کریں یا کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت کے خلاف کام نہ کریں۔
اعلامیے میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال یا استعمال کی دھمکی کو ناقابلِ قبول قرار دینے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ دور جنگ کا دور نہیں ہونا چاہیے۔
اعلامیے میں روس اور یوکرین سے اناج، اشیائے خور و نوش، اور کھاد کی فوری اور بلا روک ٹوک ترسیل کو یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
خوراک اور توانائی کے تحفظ کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس سے متعلقہ انفرااسٹرکچر پر فوجی کارروائی یا دیگر حملوں کو روکا جائے۔
نئی دہلی میں گروپ جی 20 کے اٹھارہویں سربراہی اجلاس میں ہفتے کو دو سیشن منعقد ہوئے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن سمیت برطانیہ، ترکیہ، مصر، متحدہ عرب امارات، جاپان، آسٹریلیا، انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ سمیت کئی ممالک کے سربراہان، یورپی یونین کے اعلیٰ ذمہ داران اور متعدد بین الاقوامی تنظیموں کے صدور دہلی میں موجود ہیں۔ البتہ روس اور چین کے صدور اس اجلاس میں شریک نہیں لیکن دونوں ملکوں کے نمائندے اجلاس میں شریک ہیں۔
ظہرانے کے بعد دوسرے سیشن کے دوران بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے مختصر خطاب میں بتایا کہ ہماری ٹیم کی سخت محنت کے نتیجے میں جی20 سربراہی اجلاس کے اعلامیے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔
دہلی میں نئی تعمیر شدہ عمارت بھارت منڈپم میں ہفتے کی صبح 10 بجے تک سربراہان اور غیر ملکی صدور کے فوٹو سیشن کا سلسلہ جاری رہا۔
فوٹو سیشن کے بعد اجلاس کے پہلے سیشن کا باقاعدہ آغاز ہوا جس کا موضوع 'ون ارتھ' تھا۔ اس موقع پر عالمی رہنماؤں نے صاف توانائی اور زیرو امیشن کے ہدف تک جلد از جلد پہنچنے پر گفتگو کی۔
افریقی یونین کو جی 20 میں شمولیت کی دعوت
جی 20 اجلاس کے پہلے سیشن کے دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی نے افریقی یونین کو تنظیم میں شمولیت کی دعوت کی۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ گروپ میں افریقی یونین کی شمولیت کے ساتھ جی20 اور گلوبل ساؤتھ کی آواز کو تقویت حاصل ہوگی۔ قدیم عالمی چیلنجز نئے حل کے متقاضی ہیں۔ ہمیں اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔
وزیرِ اعظم مودی نے عالمی رہنماؤں سے عالمی سطح پر بھروسے کے فقدان کو اعتماد میں تبدیل کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ کرونا وبا کے بعد عالمی برادری کو اعتماد کے فقدان کا سامنا ہے۔ تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جس طرح عالمی رہنماؤں نے کرونا وبا پر قابو پایا اسی طرح اعتماد کے فقدان کے چیلنج پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔
وزیرِ اعظم مودی جس وقت مندوبین سے خطاب کر رہے تھے ان کے سامنے رکھی ہوئی ملک کے نام کی تختی پر انڈیا کے بجائے بھارت لکھا ہوا تھا۔ تختی کا معاملہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ملک کا نام بدلنے کے سلسلے میں ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم کے سامنے رکھی تختی کو حکومت کی جانب سے ایک پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
دہلی میں جی 20 اجلاس کے سلسلے میں سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ دہلی پولیس کے اسپیشل کمشنر (لا اینڈ آرڈر) دیپیندر پاٹھک کے مطابق صورت حال پرامن اور کنٹرول میں ہے۔ پولیس مہینوں سے سیکیورٹی انتظامات میں مصروف تھی۔
دنیا کے امیر ترین ملکوں کے اس گروپ کے ارکان میں امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس، چین، جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا، ترکیہ، اٹلی، جاپان، بھارت، سعودی عرب، انڈونیشیا، جنوبی افریقہ، ارجنٹینا، جنوبی کوریا اور میکسیکو شامل ہیں جب کہ یورپی یونین بھی اس اتحاد میں شامل ہے۔
میزبان ملک بھارت کی طرف سے بنگلہ دیش، نیدر لینڈ، نائجیریا، مصر، ماریشس، عمان، سنگاپور، اسپین اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ بھارت کے پاس جی20 کی صدارت رواں سال کے لیے ہے۔ اگلے سال برازیل کے پاس صدارت منتقل ہو جائے گی۔
فورم