پاکستان کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان آصف درانی نے تہران میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات کی جس میں افغانستان کی صورت حال اور تازہ ترین علاقائی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے جاری بیان کے مطابق منگل کو تہران میں ہونے والی ملاقات میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے کہا کہ خطے بالخصوص افغانستان میں امن و استحکام کے لیے ایران اور پاکستان کا کردار اہم ہے۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسلام آباد اور کابل حکومتوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور پاکستان نے تاحال طورخم بارڈر کو کاروبار کے لیے دوبارہ نہیں کھولا۔ جب کہ ایران کی جانب سے بھی طالبان کے ساتھ دوطرفہ امور میں گرم جوشی نہیں پائی جاتی ہے۔
ایران میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے آصف درانی افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی کی حیثیت میں پہلی مرتبہ ایران پہنچے ہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق امیرعبداللہیان نے خطے میں ایران اور پاکستان کے موثر کردار پر زور دیا اور امید ظاہر کی کہ جاری دو طرفہ مذاکرات خطے اور افغانستان دونوں میں امن و استحکام میں معاون ثابت ہوں گے۔
انہوں نے ہمسائیگی کے فریم ورک کے اندر اقدامات کی حمایت کی اہمیت پر بھی زور دیا تاکہ افغانستان کو چیلنجز سے نمٹنے میں مدد ملے۔
پاکستانی سفیر آصف درانی نے علاقائی پیش رفت کا جائزہ لیا اور افغانستان میں امن کے قیام کےمقصد سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعاون کے لیے اپنے ملک کے عزم کا اظہار کیا۔
آصف درانی نے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد جولائی میں کابل کا دورہ کیا تھا جہاں ان کی افغان قیادت سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور خان کہتے ہیں کہ پاکستان کی یہ پہلے سے طے شدہ پالیسی ہے کہ افغانستان میں دیر پا قیام امن لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمسایہ ممالک سے قریبی رابطے رکھے جائیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آصف درانی کے دورے کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان اور ایران افغانستان کے معاملے پر کیسے تعاون کرسکتے ہیں تاکہ ہم آہنگی سے آگے بڑھ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان اور ایران دونوں کو سرحدی امور کے علاوہ بھی افغانستان کی طالبان حکومت سے مسائل کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے پاکستان میں حملوں میں اضافہ ہوا ہے تو ایران کو پانی کے معاملے پر طالبان حکومت سے مشکلات کا سامنا ہے۔
منصور خان نے خیال طاہر کیاکہ اس صورت حال میں دونوں ملکوں کے درمیان یہ زیر بحث آیا ہوگا کہ افغانستان میں دیر پا قیام امن کے ساتھ ساتھ ان مسائل کو کیسے حل کرنا ہے کہ خطے میں معاشی تعاون کو فروغ مل سکے۔
خیال رہے کہ طویل عرصے سے شورش زدہ ملک افغانستان کی، ایران اور پاکستان دونوں کے ساتھ سرحدیں ہیں۔
پاکستان کی جانب سے بارہا یہ کہا جاتا رہا ہے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال ہو رہی ہے جب کہ طالبان حکومت اس دعوے کی تردید کرتی آئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس برس حملوں میں 2700 سے زائد افراد ہلاک جب کہ ہزاروں زخمی ہوئے اور املاک کا بھاری نقصان ہوا۔
افغان امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر سائرہ اسد کہتی ہیں کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے خطے کے ممالک کی مشترکہ حکمت عملی پر زور دیتا رہا ہے اور آٖصف درانی کا دورہ تہران اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورت حال اور بعض امور پر طالبان کے رویے پر پاکستان اور ایران دونوں جانب تشویش پائی جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان چاہے گا کہ وہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی طرف سے مشترکہ طور پر طالبان پر دباؤ ڈالے کہ وہ خطے کی سلامتی اور ہمسایہ ممالک کے لیے قابل تشویش معاملات میں اپنی پالیسی میں نرمی لائے۔
حال ہی میں پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا تھا کہ عسکریت پسند گروہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر متواتر اور زیادہ خطرناک حملے اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ وہ افغانستان میں امریکہ کی فوج کے چھوڑے ہوئے اسلحے اور سازوسامان کو استعمال کر رہے ہیں۔
اس بیان کے بعد امریکہ کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے وقت امریکہ نے وہاں کوئی فوجی سازوسامان نہیں چھوڑا تھا۔
فورم