یہ کہانی ہے الالے اجباری کی جو ایران کے علاقے بلوچستان کی مکین ہیں۔ ان کی کہانی مہسا امینی کی ہلاکت پر ہونے والے احتجاج میں شرکت کی کہانی ہے۔
الالے اجباری کہتی ہیں کہ ان کی عمر بھی 22 سال ہے جو مہسا امینی کی تھی۔ مہاسا بھی ان کی طرح ایک صوبائی شہر سے آئی تھیں ۔ وہ کہتی ہیں: ’’ میری پرورش بھی ایرانی بلوچستان میں ہوئی اور مہسا کی المناک کہانی میں مجھے اپنی زندگی کا عکس نظر آیا۔ ان کی موت نے مجھے رلا دیا اور میں نے فورا ًاحتجاج میں شامل ہونا چاہا۔
تہران میں میرے لیے زندگی مشکل تو تھی لیکن میں نے وہاں بلوچستان کے مقابلے میں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کیا۔ دارالحکومت میں اس نوعیت کے واقعہ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ ‘‘
الالے اجباری کی شادی 16 برس کی عمر میں ہوئی تھی اور اس میں ان کی رضامندی شامل نہیں تھی۔ وہ اپنے شوہر کو بتائے بغیر گھر سے چلی گئیں ۔
انہوں نے تہران یونیورسٹی میں داخلے کے امتحانات کی تیاری کی اور انہیں نفسیات کے پروگرام میں شامل کر لیا گیا۔ جب وہ پڑھنے کے لیے تہران چلی گئیں تو انہیں وہاں سے زبردستی واپس لے جانے کی کوشش کی گئی لیکن کچھ وکلاء کی مدد سے وہ تین سال کے بعد اپنی شادی ختم کرنے میں کامیاب ہو گئیں ۔
الالے اجباری کا کہنا ہے کہ تہران میں رہنے کے بعد وہ سوچتی تھیں کہ وہاں خواتین کو مردوں کے مساوی سمجھا جائے گا اور زندگی آسان ہو جائے گی۔ انہوں نے اپنے تمام مسائل کے لیے اپنے خاندان کو مورد الزام ٹھہرایا جو بہت روایت پسند ہے۔ لیکن اپنے تجربے سے انہیں معلوم ہوا کہ دراصل یہ ایسا نظام ہے جو معاشرے کے لیے ا س بات کا تعین کرتا ہے کہ اسے کیسا ہونا چاہیے اور اس کےلیے اوپر سے احکامات آتے ہیں۔
مہسا امینی کی موت اور ابتدائی احتجاجی مظاہروں کے بعد شہر میں سیکیورٹی فورسز کی بھر مار تھی ۔ ہم نے ہر جگہ بندوق برداروں کو دیکھا جو خاص طور پر سب وے کے داخلی راستوں پرموجود تھے ۔ الالے اجباری حجاب استعمال نہیں کر رہی تھیں اور ان کے پاس کندھوں کو ڈھانپنے والی کوئی چیز بھی نہیں تھی کیونکہ وہ انہیں اپنے بیگ میں رکھ چکی تھیں ۔ مسلح افراد وہاں موجود ہونے کے باوجود وہ ’’عورت، زندگی، آزادی‘‘ کے نعرے لگاتی رہیں۔
سیکیورٹی عملے نے تہران کے مرکز میں ایک مظاہرے کے دوران آنسو گیس استعمال کی ۔ ان کے سامنے ان کی ہم عمر لڑکی کو زمین پر گرا کر پیٹا جا رہا تھا۔الالے نے اسے بچانے کی کوشش کی تو پولیس اہل کار نے اسے بھی گرا دیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ کہیں سے تین لڑکے آئے اور انہوں نے بھائی ہونے کا دعویٰ کیا۔پولیس اہل کار سے بات کرکے انہیں وہاں سے نکال کر لے گئے۔ پولیس افسر نے کہا، ’’اس بدقماش کو میری نظروں سے دور کر دو۔‘‘
الالے اجباری بتاتی ہیں کہ وہ انجان لڑکے انہیں دوسری گلی میں لے گئے اور آنسو گیس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے سگریٹ سلگایا ۔ انہوں نے انہیں پینے کے لیے بھی کوئی مشروب دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا جب مردوں نے ان کی دیکھ بھال کی تھی اور انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے دل بھی بوجھل تھے ۔
ایرانی بلوچستان میں عورتیں مردوں کے کمرے میں کھانا نہیں کھاتیں۔ اس لیے انہوں نے بھی باورچی خانے میں کھانا کھایا۔ ان کے پاس کوئی ٹیلی فون یا سیٹلائٹ ٹی وی نہیں تھا۔ وہ اپنے خاندان کے لیے بھی باعث شرمندگی بن چکی تھیں کیونکہ وہ تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور طلاق یافتہ تھیں ۔
’’انہوں نے میری توہین کی کیونکہ میں بلوچ ہوں‘‘
الالے اجباری نے تہران میں رہتے ہوئے نوجوانوں کو زبان سکھانے کی تعلیم دی اور یوں کچھ آمدن حاصل کی۔ کبھی کبھی انہوں نے گلیوں میں اور انقلاب چوک پر مصالحے بھی فروخت کیے ۔
الالے اجباری بتاتی ہیں کہ5 دسمبر کو وہ تہران پارس محلے میں کلاس پڑھا کر واپس آ رہی تھیں جب کچھ افراد نے انہیں وین میں ڈال دیا۔ وہ اب تک یہ نہیں جانتیں کہ وہ کون لوگ تھے۔ انہیں ایک ایسی جگہ پر بند کر دیا گیا جس کی وہ شناخت نہیں کر سکتیں ۔
انہوں نے ان کو بے لباس کیا اور بال کاٹ دیے۔ انہوں نے ان کی سیاہ جلد کا مذاق اڑایا۔الالے اجباری کے مطابق انہوں نے توہین کی کیونکہ وہ بلوچ ہیں ۔ ایران میں بلوچ ایک نسلی اقلیت ہیں جس کے ساتھ اکثر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
الالے اجباری کہتی ہیں کہ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھیں کہ ایک بلوچ لڑکی اپنے طور پر فرار ہو کر دارالحکومت میں رہنے میں کیسے کامیاب ہوگئی۔ انہوں نے شبہ کیا کہ وہ اپوزیشن گروپوں سے فنڈنگ حاصل کرتی ہیں۔
الالے اجباری کا کہا ہے کہ انہوں نے الزام لگایا کہ وہ تہران میں بلوچ کاز کی نمائندہ ہیں ۔ انہوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ بلوچ سنی رہنما امام مولوی عبد الحمید کی نمائندہ ہیں۔ الالے کہتی ہیں کہ انہوں نے ہنستے ہوئے انہیں بتایا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ بلوچ اس حد تک ترقی کر چکے ہیں کہ ان کی نمائندگی کے لیے ایک عورت کا انتخاب کیا جائے۔
اس وقت انہوں نے الالے کو مارا پیٹا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’تمہیں یہ پسند ہے۔ تم کہتی ہو ’عورت، زندگی، آزادی‘۔تم بے لباس ہونا چاہتی ہو، کیا یہ تمہارا نعرہ ہے؟ تو تمہیں یہی پسند ہے، تمہیں ہمارا شکریہ ادا کرنا چاہیے؟ ۔‘‘ وہ کہتے رہے کہ وہ انہیں ہلاک نہیں کریں گے لیکن واپس ایرانی بلوچستان بھیج دیں گے تاکہ ان کے چچا خود ان کا خیال رکھیں۔
’میں معمول کی زندگی میں واپس نہیں جا سکی ‘
الالے اجباری بتاتی ہیں کہ چارروز کے بعد انہوں نے مجھے گلی میں پھینک دیا۔ میرے تمام دوست میرے بارے میں پریشان تھے، وہ سب مردہ خانے تک گئے تھے اور میڈیا کو بھی میری گمشدگی کے بارے میں آگاہ کیا۔
الالے اجباری کہتی ہیں کہ انہوں نے معمول کی زندگی میں واپس جانے کی کوشش کی لیکن ایسا کر نہ پائیں ۔ ان کے طلباء نے یکے بعد دیگرے ان سے پڑھنا چھوڑ دیا۔ ان کے اپارٹمنٹ کے مالک نے انہیں وہاں سے جانے کو کہا۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ نہیں جانتیں کہ ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا یا وہ خوفزدہ تھے۔ انہوں نے اپنی تمام رقم اکٹھی کی اور ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہو گئیں اور ترکی کا رخ کیا یہ جانے بغیر کہ وہ اس میں کامیاب ہو بھی سکیں گی یا نہیں ۔
الالے اپنی گزری زندگی پر نظر ڈالتی ہیں تو یہ سمجھتی ہیں کہ ان کو تحویل میں لینے والے جانتے تھے کہ وہ کون ہیں۔ وہ اوین جیل میں دو ماہ گزار چکی تھیں۔ ان پر ’’حکومت کے خلاف پروپیگنڈے‘‘کو ہوا دینے کا الزام تھا ۔انہیں خواتین کے حقوق کی علمبردار سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ ایران میں بچپن کی شادی پر پابندی کے لیے لڑ رہی تھیں ۔ایران میں لڑکیوں کے لیے شادی کی قانونی عمر کم از کم 13سال ہے ۔ اس کے علاوہ انسٹاگرام پر ان کی پوسٹس کی وجہ سےبھی وہ جانی جاتی تھیں ۔
خوش قسمتی سےوہ ترکی پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں اور اب ایک یورپی ملک میں رہائش پذیر ہیں ۔ بیرون ملک ان کی ملاقات ایسے لوگوں سے ہوئی جو انہیں بہترطور پر سمجھتے ہیں کیونکہ تہران میں بھی دوسری لڑکیوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ انہوں نے کیا کیا برداشت کیا ہے۔
الالے اب بھی ایک ماہر نفسیات کے پاس جاتی ہیں اور اس سے مدد لیتی ہیں۔ آج بھی جب وہ اپنے قریب کسی وین کی رفتار کم ہوتے دیکھتی ہیں تو خوفزدہ ہو جاتی ہیں ۔
(اے ایف پی سے ماخوذ)
فورم