فلسطینی اتھارٹی کے لیے سعودی عرب کے نئے مقرر کردہ ایلچی نے منگل کو اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے اپنے پہلے دورے کے دوران فلسطینی صدر محمود عباس کو اپنی اسناد پیش کیں، یہ دورہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی امریکی کوششوں سے منسلک ہے۔
سفیر نائف السدیری کے دورے کو، جو اردن میں سعودی سفیر کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں، وسیع پیمانے پرمملکت کی جانب سے سعودی-اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کے اہم نکتے کو حل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سعودی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو اسی صورت میں معمول پر لائے گی جب فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف کوئی بڑی پیش رفت ہوتی ہے۔
اپنے دو روزہ دورے کےآغاز پر سعودی سفارت کار نے فلسطینی اتھارٹی میں ، جو مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں محدود خود مختاری کا استعمال کرتی ہے، صدر عباس اور ر دیگر سینئر فلسطینی حکام سے ملاقات کی۔
السدیری نے عباس سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ "انشاء اللہ، یہ دورہ، ان سینئر فلسطینی حکام کے تعاون سے جو ہمارے تعلقات کے معمار ہیں، آنے والی چیزوں کا محض آغاز ہو گا۔"
تقریباً 16 سال قبل، عرب رہنماؤں نے سعودی عرب کے شہر ریاض میں عرب امن اقدام کی توثیق کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا تھا، جس میں اسرائیل فلسطین تنازع کے منصفانہ حل کے بغیر اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم نہ کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔
اگرچہ فلسطینی اب بھی مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی قبضے اور غزہ میں اسرائیل اورمصر کی ناکہ بندی کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، تاہم حالیہ ہفتوں میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ایک تاریخی سفارتی معاہدہ پیش رفت کرتا ہوا دکھائی دیا ہے۔
لیکن اس طرح کے کسی معاہدے میں کئی رکاوٹیں باقی ہیں۔ سعودی امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کے خواہاں ہیں اور اپنا سویلین نیوکلیئر پروگرام بنانے میں مدد چاہتے ہیں، جس سے ایران کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
سعودی عرب یہ بھی چاہتا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو کم از کم کسی قسم کی مراعات دے، جس پر اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مشرقی یروشلم اور غزہ کے ساتھ قبضہ کیا تھا۔
منگل کو رملہ میں، السدیری نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت میں، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو اپنے ملک کے موقف کا اعادہ کیا ۔
لیکن فلسطینیوں کو زیادہ خودمختاری دینے کی کسی بھی کوشش کو اسرائیلی وزیر اعظم ببنیامن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طاقتور کابینہ کے وزراء نے فلسطینی اتھارٹی پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اور کھلے عام مغربی کنارے کے الحاق کا مطالبہ کیا ہے۔
منگل کے روز حکام دونوں حکومتوں کے درمیان زیرگفتگو مراعات کے بارے میں بالکل خاموش تھے۔ اس کے بجائے انہوں نے دونوں کے تعلقات کو سراہا۔
فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اس ملاقات کو ایک تاریخی سنگ میل قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ "وہ یہاں ہمارے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کا کام شروع کرنے آئے ہیں۔"
(یہ رپورٹ ایسو سی ایٹڈ پریس کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے۔)
فورم