ویب ڈیسک —
طالبان حکومت کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر کیمروں کے ذریعے نگرانی کا ایک نیٹ ورک بنایا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیےچین کی ٹیلی کام سازوسامان بنانے والی کمپنی 'ہواوے' سے مشورہ بھی کیا ہے۔
افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سےبات کرتے ہوئے کہا کہ دارالحکومت کابل میں پہلے سے ہی ہزاروں کیمروں کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جب کہ امریکہ کے 2021 کے انخلاء سے قبل بنائے گئے منصوبوں کو دوبارہ بحال کرنا بھی آئیندہ کے اقدامات میں شامل ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ بڑے پیمانے پر کیمرہ رول آؤٹ،ایک نئی سیکیورٹی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس پر مکمل عمل درآمد میں چار سال لگیں گے۔
ان کے بقول، "اس وقت ہم کابل سیکیورٹی میپ پر کام کر رہے ہیں، جو سیکیورٹی ماہرین کے ذریعے مکمل کیا جا رہا ہے اور اس میں بہت وقت لگ رہا ہے۔ ہمارے پاس پہلے سے ہی دو نقشے موجود ہیں، ایک جو کہ امریکہ نے پہلے بنایا تھا اور دوسرا ترکیہ کی حکومت کا تیار کردہ ہے۔"
اس سلسلے میں ترک حکومت کے ترجمان نے تبصرہ کرنے کی درخواست پر تاحال جواب نہیں دیا۔
طالبان کس طرح اس قسم کی بڑے پیمانے پر نگرانی کو بڑھانے اور اس کا انتظام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس کی تفصیلات پہلے نہیں دی گئیں۔
تجزیہ کار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ نقدی کے فقدان میں گھری طالبان حکومت کس طرح اس پروگرام کی فنڈنگ کر سکے گی جب کہ انسانی حقوق کے کارکن اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیمروں کی تنصیب مظاہرین پر کریک ڈاؤن کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔
عبدالمتین قانی نے کہا کہ طالبان نے اگست میں ہواوے کے ساتھ ممکنہ نیٹ ورک کے بارے میں ' گفتگو' کی تھی، لیکن کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا تھا۔
بلوم برگ نیوز نے اگست میں اطلاع دی تھی کہ 'ہواوے' نے طالبان کے ساتھ کیمرے کے ذریعے نگرانی کے نظام کو نصب کرنے کے کے لئے 'زبانی معاہدہ' کیا ہے۔ نیوز ادارے کے مطابق یہ بات اس گفتگو سے واقف ایک شخص نے بتائی۔
ہواوے نے ستمبر میں رائٹرز کو بتایا تھا کہ ملاقات کے دوران کسی منصوبے پر بات نہیں ہوئی تھی۔
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ وہ اس مخصوص بات چیت سے آگاہ نہیں ہیں لیکن انہوں نے مزید کہا: "چین نے ہمیشہ افغانستان میں امن اور تعمیر نو کے عمل کی حمایت کی ہے اور متعلقہ تعاون کے لیے چینی کاروباری اداروں کی حمایت کی ہے۔"
انسانی حقوق کے کارکنان کو تحفظات
کابل کے کیمرہ سسٹم کو آخری بار 2008 میں اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ طالبان کے مطابق کابل اور دیگر شہروں میں 62 ہزار سے زیادہ کیمرے ہیں جن کی نگرانی مرکزی کنٹرول روم سے کی جاتی ہے۔
جب جنوری 2021 میں نیٹو کی زیر قیادت بین الاقوامی افواج بتدریج انخلاء کر رہی تھیں، اس وقت کے نائب صدر امر اللہ صالح نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کابل کے کیمرہ نگرانی کے نظام کا بہت بڑا اپ گریڈ کرے گی۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ اس 100 ملین ڈالر کے منصوبے کو نیٹو کے اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے۔
صالح نے ستمبر میں رائٹرز کو بتایا، "ہم نے 2021 کے اوائل میں جس انتظام کا منصوبہ بنایا تھا وہ مختلف تھا اور اس منصوبے کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
یہ واضح نہیں کہ امر اللہ صالح نے جس منصوبے کا حوالہ دیا وہ اس سے ملتا جلتا تھا جو طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے حاصل کیا ہے، اور نہ ہی یہ کہ انتظامیہ اسی میں ترمیم کرے گی۔
مرکز برائے بحری تجزیہ یعنی سینٹر فور نیول انیلیسز ادارے کے ساتھ افغانستان کے لیے ماہر جوناتھن شروڈن نے کہا کہ نگرانی کا نظام طالبان کے لیے مفید ہو گا کیوں کہ وہ داعش جیسے گروپوں کو کابل میں طالبان کے اراکین یا حکومتی عہدوں پر حملہ کرنے سے روکنا چاہتے ہیں ۔
طالبان پہلے ہی سیکیورٹی فورس کی گاڑیوں اور باقاعدہ چیک پوائنٹس کے ذریعے شہری مراکز کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔انسانی حقوق کے کارکن اور حکومت کے مخالفین کو تشویش ہے کہ نگرانی میں اضافہ سول سوسائٹی کے ارکان اور مظاہرین کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
اگرچہ طالبان گرفتاریوں کی تصدیق نہیں کرتے لیکن صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آںے کے بعد سے کم از کم 64 صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے میٹ محمودی نے کہا کہ "قومی سلامتی کی آڑ میں بڑے پیمانے پر نگرانی کے نظام کا نفاذ طالبان کے لیے اپنی ظالمانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے ایک نظام کو جنم دیتاہے جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
طالبان اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ نگرانی کا جدید نظام افغان شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرے گا۔ افغان حکومت کی وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق یہ نظام دنیا کے بڑے شہروں میں ایسے نظام کے استعمال کے کی طرح ہے اور یہ اسلامی شریعت کے قانون کے مطابق چلایا جائے گا، جو نجی مقامات پر ریکارڈنگ کرنے کو روکتا ہے۔
سیکورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو عملی چیلنجز کا سامنا ہے کیوں کہ افغانستان میں وقفے وقفے سے روزانہ بجلی کی لوڈشیڈیگ کا مطلب ہے کہ مرکزی گرڈ سے منسلک کیمرے مستقل فیڈ فراہم کرنے میں ناکام رہیں گے۔
سرکاری بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے مطابق صرف 40 فی صد افغانوں کو بجلی تک رسائی حاصل ہے۔
طالبان انتظامیہ نے 2022 میں کہاتھا کہ اس کا سالانہ بجٹ دو بلین ڈالر سے زیادہ ہے، جس میں طالبان کے آرمی چیف کے مطابق دفاعی اخراجات بجٹ کا سب سے بڑا حصہ ہیں۔
فورم