رسائی کے لنکس

بلوچستان میں داعش نے کیسے جنم لیا؟


بلوچستان کے علاقے مستونگ میں بارہ ربیع الاول کے جلوس پر خودکش حملے میں پچاس سے زائد افراد کی ہلاکت اس علاقے کی حالیہ تاریخ میں دہشت گردی کا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل جولائی 2018ء میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سراج رئیسانی کے انتخابی جلسے پر خودکش حملے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مستونگ حملے کے بعد جمعے کو ہی کالعدم تنظیم جماعت الاحرار اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔

دولتِ اسلامیہ 'داعش' سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے مستونگ حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم بلوچستان حکومت نے تاحال ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کی۔

مستونگ خودکش حملے سے ایک روز قبل کالعدم جماعت الاحرار اور ٹی ٹی پی کی جانب سے فرقہ پرستی پر مبنی ایک بیان سامنے آیا تھا۔ اس بیان میں حکومت پر بھی کڑی تنقید کی گئی تھی۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حملے کے خدشات تھے اس لیے لگ بھگ تمام بڑے شہروں میں بارہ ربیع الاول کے حوالے سے غیرمعمولی انتظامات کیے گئے تھے۔

بلوچستان کے امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور اینکر شاہد رند کا کہنا ہے کہ مستونگ کو کوئٹہ کے بعد دوسرے نمبر پر دہشت گردی سے متاثرہ علاقہ قرار دیا جائے تو بے جا نا ہوگا۔تین دہائیاں قبل یہ علاقہ شہتوت کے باغات اور شور مچاتے کاریزوں کے لیے مشہور تھا اور اسے تہواروں کا شہر کہا جاتا تھا۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں یہاں فرقہ ورانہ سرگرمیوں نے پنجے جمائے ہیں۔

مستونگ دراصل ریاست قلات کا حصہ رہا ہے یہاں ماضی میں قوم پرستانہ سیاست رہی ہے لیکن جس طرح افغان جنگ کے دوران پورا ملک فرقہ پرستی کی لپیٹ میں آیا اسی طرح مستونگ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پایا۔

بلوچستان میں داعش نے کیسے جنم لیا؟

بلوچستان میں داعش مختلف تنظیموں کے افراد کی شمولیت کے بعد ابھری ہے۔ داعش کی سرگرمیوں کی خبر رکھنے والے خیبرپختونخوا کے سینیئر صحافی ناصر داوڑ کہتے ہیں داعش نے 2014 میں ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ کے دور میں ہی اپنے قدم جمانا شروع کر دیے تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ"شام سے داعش کے ایک وفد نے 2014 میں افغانستان کا دورہ کیا تھا اور ٹی ٹی پی کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تھی لیکن کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنماؤں نے شمولیت سے معذرت کر لی تھی۔"

واضح رہے کہ دو ہزار نو میں سوات آپریشن کے بعد ملا فضل اللہ افغانستان کے صوبے کنڑ فرار ہو گئے تھے جہاں بعدازاں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ملا فضل اللہ کو ٹی ٹی پی کا سربراہ چنا گیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب داعش نے شام سے اس خطے کی جانب اپنی موجودگی کے لیے کوششیں تیز کر دی تھیں۔

ناصر داوڑ کے مطابق شامی وفد نے 2014 میں ہی بلوچستان کے مختلف گروہوں سےملاقاتیں کی تھیں جس کے بعد کالعدم تنظیموں کے کئی جنگجو داعش میں شامل ہو گئے تھے۔ ان میں کئی لوگ ایسے بھی تھے جو کالعدم لشکر جھنگوی العالمی کا حصّہ رہے تھے۔

لشکر جھنگوی العالمی دراصل لشکر جھنگوی کا ہی ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم ہے۔متشدد فرقہ ورانہ نظریات کے باعث لشکر جھنگوی العالمی جیسی تنظیموں کا داعش کی طرف مائل ہونا نظریاتی طور پر ایک فطری اتحاد ہے۔

واضح رہے کہ سن 1996ء میں سپاہ صحابہ سے ٹوٹ کر لشکرِ جھنگوی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لشکر جھنگوی کے مختلف گروپ سامنے آتے گئے جن میں لشکرِ جھنگوی العالمی سمیت اکرم لاہوری گروپ، آصف چھوٹو گروپ، نعیم بخاری گروپ، قاری ظفر گروپ، قاری شکیل گروپ اور فاروق بنگالی گروپ جیسے سات گروپ شامل ہیں۔یہ گروپ ملک بھر میں اور خصوصاً کراچی اور کوئٹہ میں سرگرم رہے۔

بلوچستان میں خصوصاََ ہزارہ آبادیوں کو جس طرح نشانہ بنایا گیا یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ بلوچستان میں فرقہ پرستی کے رجحانات کافی گہرے ہیں۔

بلوچستان میں لشکر جھنگوی العالمی اور داعش کے گٹھ جوڑ کی تاریخ

گو کہ لشکر جھنگوی العالمی نے داعش کی بیعت کا اعلان نہیں کیا لیکن اگست 2016ء میں کوئٹہ میں وکلاء پر خودکش حملہ، اکتوبر میں پولیس کالج پر حملہ اور اسی سال نومبر میں خضدار میں ایک صوفی مزار پر حملے کی ذمہ داری مشترکہ طور پر لشکرجھنگوی العالمی اور داعش نے قبول کی تھی۔

لشکرِ جھنگوی العالمی کے سربراہ کی حیثیت سے یوسف منصور خراسانی کا نام سامنے آیا تھا تاہم ان کے حوالے سے معلومات نا ہونے کے برابر ہیں۔

عسکریت پسندی پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک 'دی جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن' کی 2017ء میں ٹیررازم مانیٹر والیوم پندرہ کے دوسرے شمارے میں بلوچستان میں 2016 کے دوران دہشت گردی کے تین بڑے واقعات کا ذکر ہے جس میں درجنوں ہلاکتیں ہوئی تھیں اور یہ وہی حملے تھے جن کی ذمے داری داعش اور لشکرِ جھنگوی العالمی نے مشترکہ طور پر قبول کی تھی۔

صحافی ناصر داوڑ کہتے ہیں "لشکرِ جھنگوی کے سربراہان کی یکے بعدیگرے موت کے بعد ان کے جنگجو اور کارکن بکھر گئے تھے۔ خیبرپختونخوا میں تو ان کی اکثریت کالعدم ٹی ٹی پی میں ہی کام کرنے لگےتھی لیکن جب داعش نے اپنے پیر جمانا شروع کیے تو ان کے رجحانات داعش کی طرف ہو گئے۔ لگ بھگ یہی صورتِ حال ملک کے باقی حصوں میں بھی ہو گی۔"

خیال رہے کہ لشکرِ جھنگوی کے بانی و سابق امیر ملک اسحاق اپنے 14 ساتھیوں سمیت جولائی 2015 میں پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے۔

مستونگ کیوں نشانہ بنا؟

سیکیورٹی ذرائع کا ماننا ہے کہ بارہ ربیع الاول کے جلوسوں کے سلسلے میں بڑے شہروں میں اور خصوصاً کوئٹہ میں سیکیورٹی کافی سخت تھی اس لیے بڑوں شہروں کے مقابلے میں مستونگ جیسے علاقوں میں عسکریت پسندوں کے لیے کامیاب حملہ کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔

صحافی شاہد رند کہتے ہیں مستونگ میں حالیہ عرصے کے دوران کافی بدلاؤ آیا ہے۔ یہاں دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت تھی اور اب بریلوی مکتبۂ فکر کی سرگرمیاں بھی نظر آنے لگی ہیں۔

ان کے بقول ، "بلوچ سرزمین ہونے کے باوجود مستونگ میں کئی پشتون قبائل آباد ہیں جب کہ سکھ اور مسیحی برادری بھی ضلع مستونگ میں آباد تھی لیکن کچھ سالوں سے سکھ اب ہمیں نہیں ملتے۔"

مستونگ دھماکہ: عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:46 0:00

پاکستان کی فورسز نے داعش سے منسلک عسکریت پسندوں کے خلاف مستونگ میں جون 2017 میں تین روزہ آپریشن کیا تھا۔ اس آپریشن کے بعد فوج نے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ مستونگ کے کوہ سیاہ اور کوہ مران کے غاروں میں چھپے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کی گئی جس کے دوران ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کا تعلق لشکر جھنگوی العالمی سے تھا۔

بیان میں اس خدشہ کا بھی اظہار کیا گیا تھا کہ یہ جنگجو داعش سے کسی نا کسی حوالے سے جڑے ہوئے تھے۔

پاکستان کے دیگر سرحدی علاقوں کی طرح مستونگ بھی افغانستان کی سرحد سے قریب ہونے کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے جہاں وقتاً فوقتاً سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ رواں برس فروری میں بھی یہاں دو لیویز اہلکاروں کو گھات لگا کر قتل کیا گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں کی سرحدی علاقوں میں موجودگی نے نا صرف ان تنظیموں کے آپس میں روابط کو مضبوط کیا ہے بلکہ عالمی تنظیموں کے ساتھ رابطوں کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

ادارتی نوٹ: یہ آرٹیکل لکھنے والے صحافی سے گفتگو میں 'داعش' میں موجود ذرائع نے مستونگ حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم 'داعش' کے آفیشل پلیٹ فارم نے تاحال اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔

  • 16x9 Image

    سید فخر کاکاخیل

    سید فخرکاکاخیل دی خراسان ڈائری اردو کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ مختلف مقامی، ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے  لیے پشتو، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ زیادہ تر وہ پاک افغان اور وسطی ایشیا میں جاری انتہا پسندی اور جنگ کے موضوعات کے علاوہ تجارتی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب "جنگ نامہ: گلگت سے گوادر اور طالبان سے داعش تک گریٹ گیم کی کہانی" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG