رسائی کے لنکس

'کون لوگ ہیں جو عید میلاد کے جلوس کو بھی نہیں چھوڑتے'


مستونگ دھماکے میں بچے بھی زخمی ہوئے۔ فوٹو اے پی
مستونگ دھماکے میں بچے بھی زخمی ہوئے۔ فوٹو اے پی

سول اسپتال کوئٹہ میں ٹراما سینٹر کے گیٹ کے باہر مستونگ میں ہونے والے دھماکے میں زخمی افراد کے لواحقین کا جم غفیر تھا۔ ان میں ایک شخص صدام حسین تھے جن کے خاندان کے 15 افراد ہلاک جب کہ 30 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

صدام حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ شدید پریشانی اور غم میں مبتلا ہیں۔ ان کے گھر سے اتنی زیادہ لاشیں اٹھی ہیں کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کیا کریں اور کہاں جائیں۔

صدام حسین نے بتایا کہ اب بھی ان کے خاندان کے 15 افراد مختلف اسپتالوں میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

ان کے بقول’’ میں مستونگ کے بس اڈے پر موجود تھا کہ مجھے کسی سے معلوم ہوا کہ حاجی کوڑا کے علاقے میں مدنی مسجد کے پاس ایک دھماکہ ہوا ہے۔ میں اسی وقت وہاں سے نکل گیا اور تقریباً 20 منٹ کے اندر دھماکے کی جگہ پہنچا‘‘۔

مستونگ دھماکہ: عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:46 0:00

انہوں ںے بتایا کہ دھماکے کے مقام پر ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ زخمیوں کو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اسپتال منتقل کر رہے تھے۔ وہ بھی لوگوں کو بچانے اور اپنے رشتہ داروں کو تلاش کرنے میں مصروف ہو گئے۔

"ہمیں گھروں سے بار بار فون آرہے ہیں کہ ان کہ پیارے کیسے ہیں۔ ہم کس طرح انہیں بتائیں کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔"

صدام حسین نے کہا کہ لوگ میلاد منا رہے تھے۔ نہ جانے کون ایسے لوگ ہیں جو میلاد کے جلوس کو بھی نہیں چھوڑتے اور ناحق لوگوں کا خون بہاتے ہیں۔

مستونگ دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو اسپتال میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ 29 ستمبر 2023
مستونگ دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو اسپتال میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ 29 ستمبر 2023

مستونگ ہی کیوں نشانے پر؟

مستونگ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک ضلع ہے۔ماضی میں بھی مستونگ کے علاقے میں مذہبی اور سیاسی اجتماعات پر ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں۔

سال 2017 میں مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے کے قریب دھماکے میں 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سال 2018 میں مستونگ کے علاقے درینگڑ کے قریب بلوچستان عوامی پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے کے نتیجے میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی سراج رئیسانی سمیت 128 افراد ہلاک جب کہ 150 زخمی ہوئے تھے۔

بلوچستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم شاہد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نائین الیون کے بعد پاکستان میں شدت اور عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا۔ جن لوگوں کو سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جہاد کے لیے لایا گیا وہ امریکہ کے افغانستان آنے کے بعد یہاں پاکستان میں آگئے اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اسی وقت سے اضافہ ہوا۔

سلیم شاہد کے بقول" بلوچستان اس وقت ایک پر امن صوبہ تھا مگر اس کے بعد بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہونے لگے، محرم کے جلوسوں اور سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ شاید مستونگ میں شدت پسند زیادہ تعداد میں جمع ہوگئے ہیں اور اسی وجہ سے گزشتہ الیکشن میں نوابزادہ سراج رئیسانی پر حملہ ہوا، مولانا غفور حیدری اور گزشتہ دنوں حافظ حمد اللہ پر بھی مستونگ میں ہی حملہ ہواتھا ۔

سلیم شاہد کے مطابق بلوچستان میں میلاد کے جلوسوں پر اس طرح کا حملہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہو اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جو مستونگ میں پیش آیا ہے۔

ایک شخص دھماکے میں اپنے ایک عزیز کی ہلاکت پر غمزدہ ہے۔ 29 ستمبر 2023
ایک شخص دھماکے میں اپنے ایک عزیز کی ہلاکت پر غمزدہ ہے۔ 29 ستمبر 2023

مستونگ دھماکہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی

شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) نے دھماکے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

مستونگ میں پیغمبرِ اسلام کے یومِ ولادت کے سلسلے میں نکالی جانے والی ایک ریلی میں دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 52 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہو ئے ہیں۔ جب کہ کئی زخمیوں کی حالت تشویش ناک بیان کی جاتی ہے۔

انسپکٹر جنرل بلوچستان پولیس عبدالخالق شیخ کے مطابق خود کش بمبار کو روکنے کے دوران دھماکہ ہوا جس میں ایک پولیس افسر ہلاک اور تین زخمی بھی ہوئے ہیں۔

اسپتال میں مستونگ دھماکے کے زخمیوں کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ 29 ستمبر 2023
اسپتال میں مستونگ دھماکے کے زخمیوں کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ 29 ستمبر 2023

'لوگ مشتعل تھے، امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا رہا'

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر عطاء المینم نے بتایا کہ جب دھماکہ ہوا تو میں تقریباً 80 میٹر کے فاصلے پر موجود تھا۔

دھماکے کے بعد بھگدڑ مچ گئی اور لوگ جان بچانے کے لیے بھاگنے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد لوگ مشتعل تھے اور فورسز سمیت ہر کسی کو برا بھلا کہہ رہے تھے جس کی وجہ سے شروع میں امدادی کاموں میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔

اس کے بعد جلوس میں شامل کچھ لوگوں کی مدد سے ریسکیو کا کام شروع کیا۔ مستونگ کے سرکاری اسپتالوں سے ایمبولینس گاڑیاں منگوائی گئیں اور زخمیوں کو نواب غوث بخش اسپتال منتقل کرنا شروع کیا۔

انہوں نے بتایا کہ جلوس میں تقریباً ایک ہزار سے زائد افراد شامل تھے جب کہ مزید لوگ بھی اکھٹے ہو رہے تھے۔ دھماکے سے 50 سے زائد افراد ہلاک جب کہ 60 کے قریب زخمی ہوئے، جن میں سے 16 کی حالت تشویشناک ہے۔

مستونگ دھماکے کے ایک زخمی ہو اسپتال لایا جا رہا ہے۔ 29 ستمبر 2023
مستونگ دھماکے کے ایک زخمی ہو اسپتال لایا جا رہا ہے۔ 29 ستمبر 2023

'ہم صرف اللہ سے ڈرتے ہیں'

ریلی میں شامل ایک عینی شاہد نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ "یہ لوگ جتنے بھی دھماکے کریں ہم میلاد منانے سے باز نہیں آئیں گے۔"

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مستونگ کے ایک مقامی شخص حافظ محمد نے بتایا کہ ہم اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں صبح یہاں جلوس میں شرکت کے لیے آیا تھا کہ یہاں اچانک ایک دھماکہ ہوا۔پھر دھواں سے اٹھا اور ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ یہ قیامت کا منظر تھا۔ زخمیوں کو میں نے رکشے کے ذریعے اسپتال منتقل کیا۔ انتظامیہ دھماکے کے بعد بہت دیر سے پہنچی۔

مستونگ دھماکے کے ایک اور عینی شاہد محمد افضل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صبح ہم مستونگ کے علاقے حاجی کوڑا خان میں مدینہ مسجد کے پاس اکھٹے ہو رہے تھے۔ ان کے مطابق تقریباً 12 بجے کے قریب لوگ جلوس میں روانہ ہورہے تھے کہ اچانک ایک دھماکہ ہوا۔

پیرا میڈکس اور رضاکار ایک زخمی کو ہسپتال منتقل کر رہے ہیں۔ 29 ستمبر 2023 اے پی
پیرا میڈکس اور رضاکار ایک زخمی کو ہسپتال منتقل کر رہے ہیں۔ 29 ستمبر 2023 اے پی


محمد افضل نے بتایا کہ وہ دھماکے کے مقام سے کچھ فاصلے پر تھے اس لیے وہ بال بال بچ گئے۔

انہوں نے بتایا کہ دھماکے بعد وہ اور ان کے ساتھی آگے بڑھے اور لاشوں پر چادریں ڈالیں۔ وہاں زخمیوں کی آہ و پکار تھی جو درد سے کراہ رہے تھے۔

محمد افضل نے بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسے مناظر نہیں دیکھے۔ ہم تو میلاد منانے آئے تھے اب اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں۔

اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ

دھماکے کے بعد مستونگ سمیت کوئٹہ کے تمام سرکاری اسپتالوں میں انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ کردی۔ ڈائریکٹر جنرل صحت بلوچستان ڈاکٹر قاضی نور محمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ میں خود یہاں سول اسپتال میں انتظامات کی نگرانی کررہا ہوں۔

ان کے مطابق سول اسپتال میں چار افراد کی لاشیں لائی گئی ہیں جب کہ 30 زخمیوں کو لایا گیا ہے۔ جن کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے ڈاکٹرز اور دیگر عملہ موجود ہے۔

خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 سے زیادہ ہے۔ 23 ستمبر 2023
خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 سے زیادہ ہے۔ 23 ستمبر 2023

سول اسپتال کے ٹراما سینٹر میں موجود 6 زخمیوں کی حالت تشویش ناک بتائی گئی جن کو بعد میں کمبائنڈ ملٹری اسپتال منتقل کردیا ہے۔

اسپتال میں موجود زخمیوں کے لواحقین نے وہاں موجود سہولیات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG