ترکیہ کے صدر طیب ایردوان نے بدھ کے روز کہا کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے حملے کے جواب میں غزہ پر اسرائیل کی ناکہ بندی اور بمباری ایک ایسا عمل ہے جو "قتل عام" کے مترادف ہے۔
انقرہ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کے ساتھ، ایردوان اور ان کے وزیر خارجہ نے، امریکہ اور دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ تاہم انقرہ میں اسرائیل کے ایلچی نے کہا ہے کہ ثالثی پر بات کرنا قبل از وقت ہے۔
پارلیمنٹ میں اپنی حکمران اے کے پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے ایردوان نے کہا کہ جنگ کی بھی ایک "اخلاقیات" ہوتی ہے لیکن اختتام ہفتہ کے واقعات اس کی "انتہائی شدید" خلاف ورزی ہیں۔
ترکیہ کے صدر طیب ایردوان نے اسرائیل کی بجلی اور پانی کی بندش اور غزہ کی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنےکا حوالہ دیتے ہوئے کہا"لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے روکنا اور ان گھروں پر بمباری کرنا جہاں شہری رہتے ہیں ، ہر طرح کے شرمناک طریقے کو استعمال کرتے ہوئے ایک تنازعہ چلانا ، جنگ نہیں ایک قتل عام ہے،"
ترکیہ، جس نے ماضی میں فلسطینیوں کی حمایت کی ہے اور حماس کے ارکان کی میزبانی کی ہے، برسوں کی دشمنی کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
یورپی یونین اور امریکہ کے برعکس، انقرہ حماس کو دہشت گرد تنظیم نہیں مانتا۔ اسرائیل پر کھلے عام الزام نہ لگاتے ہوئے، ترکیہ نے کہا ہے کہ لڑائی کی وجہ فلسطینیوں کے خلاف برسوں کی ناانصافی ہے اور امن کا واحد راستہ دو ریاستی حل سے ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔
بدھ کے روز، ایردوان نے غزہ پر اسرائیل کے "غیر متناسب" حملوں کو "کسی بھی اخلاقی بنیاد سے عاری" قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ "چشم پوشی سے گریز کرے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ بنیادی مسئلے کو حل نہ کیے جانے سے نئے، زیادہ پرتشدد تنازعات جنم لیں گے۔ "ہم امریکہ، یورپ اور دیگر خطوں کے ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فریقین کے درمیان ایک ایسا موقف اختیار کریں جو منصفانہ، اور انسانی ہمدردی کے توازن پر مبنی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ "ہر کسی کو انسانی ہمدردی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے جیسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جن کی سز افلسطینی عوام کو ملے ".
یہ رپورٹ رائٹرز کی اطلاعات پر مبنی ہے۔
فورم