پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پولیس ڈسکہ کے گاؤں میں بدھ کو کالعدم تنظیم 'جیش محمد' کے سابق عہدے دار اور اُن کے سیکیورٹی گارڈ کے قتل کے معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ڈسکہ میں مارے جانے والے مولانا شاہد لطیف بھارتی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کو مطلوب تھے۔ اُنہیں پٹھان کوٹ حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی سمجھا جاتا تھا۔
ڈسکہ کے گاؤں مںڈیکی گورائیہ میں بدھ کی صبح نامعلوم افراد نے مسجد کے اندر گھس کر فائرنگ کر کے مولانا شاہد لطیف اور ان کے سیکیورٹی گارڈ کو قتل اور امام مسجد کو زخمی کر دیا تھا۔
پولیس کے مطابق نمازِ فجر کے دوران پیش آنے والے اس واقعے کے دوران مسجد میں بھگدڑ مچ گئی اور اس دوران حملہ آور بھی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
اطلاعات کے مطابق جس مسجد میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے وہ ماضی میں کالعدم جیش محمد کی تنظیمی اور جہادی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہی ہے۔
تاہم پاکستان میں اس تنظیم پر پابندی کے بعد بظاہر یہاں تنظیمی اور جہادی سرگرمیاں بند تھیں اور اہلِ علاقہ کے مطابق مسجد میں اب پانچ وقت کی نماز کے علاوہ بچوں کو قرآن حفظ کرایا جاتا ہے۔
جامع مسجد النور میں ہلاک ہونے والے مولانا شاہد لطیف کالعدم تنظیم جیش محمد کے تنظیمی معاملات میں کافی متحرک رہے ہیں اور وہ تنظیم میں وسطی پنجاب کے کمانڈر کہلاتے تھے۔
بدھ کی صبح کیا ہوا؟
عینی شاہدین کے مطابق نمازِ فجر شروع ہوئی تو ایک موٹر سائیکل پر سوار تین افراد مسجد کے باہر پہنچے جن میں سے دو افراد اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے وضو کیا اور پھر مسجد کے اندرونی ہال کی طرف چلے گئے جہاں نماز شروع ہو چکی تھی۔
مسجد کی سیکیورٹی پر مامور گارڈ ذوالفقار رحمانی نے پولیس کو بتایا کہ یہ لوگ نئے تھے جن کی عمریں 22 سال کے لگ بھگ ہوں گی۔
سیکیورٹی گارڈ کے مطابق کچھ ہی لمحوں کے بعد اندرونی ہال سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں تو وہاں بھگڈر مچ گئی۔
ذوالفقار رحمانی کا کہنا تھا کہ ہال کے اندر جا کر دیکھا تو مولانا شاہد لطیف ہلاک ہو چکے تھے جب کہ ان کا سیکیورٹی گارڈ ہاشم خاں اور امام مسجد مولانا عبد الاحد خون میں لت پت تھے۔
تھانہ صدر ڈسکہ پولیس نے حملہ آوروں کی تعداد چھ ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایف آئی آر میں قتل، اقدامِ قتل اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات لگائی گئی ہے۔
'یہ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا واقعہ ہے'
سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد حسن اقبال نے النور مسجد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے تصدیق کی کہ یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے جسے دہشت گردی بھی کہا جا سکتا ہے۔
حسن اقبال کے مطابق "مقتول شاہد لطیف کو سیکیورٹی تھریٹس بھی تھے۔ حساس ادارے اس واقعے کی اپنے زاویوں سے تفتیش کر رہے ہیں اور جلد ملزمان کو ٹریس کرلیں گے۔"
ڈی پی او نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بعد سے ڈسکہ، مںڈیکی گورائیہ اور گردونواح کے علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے جب کہ موقع سے شواہد اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔
مولانا شاہد لطیف بھارت میں جیل بھی کاٹ چکے ہیں: اہلِ محلہ
مولانا شاہد لطیف اپنے آبائی گاؤں مںڈیکی گورائیہ میں شاہد بھائی کے نام سے جانے جاتے تھے جن کے بارے میں گاؤں میں یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ وہ 13 سال قبل بھارتی جیل میں 15 سال قید کاٹ کر پاکستان آئے تھے۔
گاؤں میں سارا دن اس وقوعے کے بارے میں لوگ آپس میں باتیں کرتے دکھائی دیے۔ لیکن میڈیا کے ساتھ کوئی شخص کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔
ایک رہائشی محمد رمضان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مولانا شاہد لطیف گوجرانوالہ کے علاقے ایمن آباد کے رہائشی تھے جب کہ کالعدم تنظیم کی سرگرمیوں کے باعث وہ کئی برس قبل ایمن آباد سے منڈیکی گورائیہ منتقل ہو گئے تھے۔
ان کے سیکیورٹی گارڈ ہاشم خاں کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر بھکر سے تھا جب کہ زخمی امام مسجد عبدالاحد لودھراں کے رہائشی ہیں۔
محمد رمضان نے بتایا کہ کہ مولانا شاہد لطیف کا بظاہر اور کوئی کاروبار نہیں تھا، وہ مسجد سے ملحقہ رہائش گاہ میں اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ رہتے تھے اور دوپہر اور شام کو قرآن کی کلاسیں بھی پڑھاتے تھے۔ ان کا سیکیورٹی گارڈ ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا تھا۔
وائس آف امریکہ کے سرینگر میں نمائندے یوسف جمیل کے مطابق بھارتی عہدیداروں کے مطابق شاہد لطیف کا نام ملک کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی مرتب کردہ مطلوب ترین دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بھارتی حکومت کے مطابق شاہد لطیف نہ صرف دو جنوری 2016 کو پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ بلکہ انہوں نے دسمبر 1999 میں انڈین ایئر لائنز کی پرواز آئی سی۔814 کے اغوا اور اسے مسافروں سمیت افغانستان کے شہر قندھار پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے اغوا کیے گئے طیارے کے مسافروں کی رہائی کے عوض جیشِ محمد کے لیڈر مولانا مسعود اظہر، کشمیری عسکری تنظیم العمر مجاہدین کے چیف کمانڈر مشتاق احمد زرگر اور احمد عمر سعید شیخ کو جو اُس وقت بھارتی جیلوں میں بند تھے رہا کیا تھا۔
عمر سعید پر بعد میں امریکی صحافی ڈینئل پرل کو 2002 میں کراچی میں اغوا کرنے کے بعد قتل کرنے کے واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمہ چلا تھا۔
شاہد لطیف کے بارے میں بھارتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ کالعدم جیشِ محمد کے ایک سرگرم رکن تھے اور اس حیثیت سے انہوں نے پٹھان کوٹ حملے میں ایک اہم سازشی کا رول ادا کیا تھا اور اس حملے کو انجام دینے کے لیے تنظیم کے چار دہشت گردوں کو بھارت بھیجا تھا۔
اس حملے میں چھ سیکیورٹی اہل کار مارے گئے تھے اور بعد میں زخمی ہونے والے اہل کاروں میں سے مزید تین چل بسے تھے جب کہ پانچوں مبینہ حملہ آوروں کو بھی جوابی کارروائی کے دوراں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
عہدیداروں کے مطابق شاہد لطیف بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں کے مضافات میں واقع کوٹ بلوال جیل میں 16 برس تک قید رہے۔ اسی جیل میں مولانا مسعود اظہر بھی قید تھے۔ سزا مکمل ہونے پر شاہد لطیف کو 2010 میں ملک بدر کرکے واہگہ کے راستے پاکستان بھیج دیا گیا۔
پاکستان میں جہادی تنظیم کے سابق کمانڈر کی ہلاکت کا چوتھا واقعہ
یاد رہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ جس میں کسی کالعدم جہادی تنظیم سے وابستہ شخص کو پراسرار حالات میں قتل کردیا گیا ہو۔ اس سے پہلے کراچی اور اسلام آباد میں الگ الگ واقعات میں تین افراد قتل ہو چکے ہیں۔
رواں سال فروری میں ماہر تعلیم سید خالد رضا کراچی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جو کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری تنظیم البدر مجاہدین سے بطور کمانڈر وابستہ رہ چکے تھے۔
اس واقعے سے چھ روز پہلے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم ہلاک ہوئے جوکہ کشمیر میں فعال جہادی تنظیم حزب المجاہدین کے کمانڈر رہ چکے تھے۔
گزشتہ برس مارچ میں کراچی کے علاقے اختر کالونی میں زاہد اخوند کو قتل کر دیا گیا تھا۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق زاہد اخوند کشمیر میں فعال عسکری تنظیم جیش محمد سے وابستہ رہے تھے جو مبینہ طور پر 1999 میں ایئر انڈیا کے طیارے کی ہائی جیکنگ میں ملوث تھی۔
شاہد لطیف کے قتل کے واقعے کو بھارتی میڈیا میں بڑی تشہیر دی جارہی ہے۔
بدھ کو یہ خبر مختلف نجی نیوز ٹیلی ویژن چینلوں کی ہیڈ لائنز میں رہی جب کہ مختلف نیوز پورٹلز نے بھی اسے نمایاں جگہ دی ہے۔
فورم