بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کی اہم ترین جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی مرکزی قیادت اور 150 اہم ترین رہنماؤں کے خلاف پولیس اہلکار کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں جنوری 2024 میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس سے قبل وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفے اور آزادانہ الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
اتوار کو اسی حوالے سے ہونے والے احتجاج میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا تھا جس کے قتل کے مقدمے میں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو نامزد کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخر الاسلام عالم گیر سمیت 164 افراد کو پولیس نے مقدمے میں نامزد کرنے کی تصدیق کی ہے۔
پولیس افسر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ان ملزمان پر پولیس اہلکار کے قتل کا الزام ہے۔ اسی حوالے سے ان پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ الزامات ثابت ہونے پر ان افراد کو موت کی سزا کا سامنا ہو سکتا ہے۔
مرزا فخر الاسلام عالم گیر کی عمر لگ بھگ 75 برس ہے اور وہ بی این پی کی شریک سربراہ خالد ضیا کی گرفتاری اور ان کے بیٹے کی برطانیہ جلا وطنی کے بعد پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔
دارالحکومت ڈھاکہ کے پولیس کمشنر حبیب الرحمٰن نے قبل ازیں بتایا تھا کہ مرزا فخر الاسلام عالم گیر کو ہفتے کے دن ہونے والے پر تشدد احتجاج کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔
واضح رہے کہ اس احتجاج میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس دوران ایک اہلکار اور احتجاج میں شامل ایک شخص ہلاک ہوا تھا۔
احتجاج کے دوران پولیس کی 26 گاڑیوں کو بھی نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔
پولیس نے الزام عائد کیا تھا کہ اہلکار مظاہرین کے تشدد سے ہلاک ہوا اور اس کے لیے بی این پی کی قیادت کو ذمے دار ٹھہرایا گیا تھا۔
بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں کئی ماہ سے وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ یہ احتجاج ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اپوزیشن کی اہم ترین رہنما اور دو بار وزیرِ اعظم رہنے والی خالدہ ضیا اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ قبل ازیں وہ بد عنوانی کے الزامات میں جیل میں قید تھیں۔
اتوار کو بی این پی نے بنگلہ دیش کی بڑی مذہبی پارٹی جماعتِ اسلامی کے ساتھ ملک کر احتجاج کیا تھا۔ اس احتجاج کو رواں برس کے بڑے مظاہروں میں شمار کیا جا رہا ہے۔
اس احتجاج کو جنوری میں ہونے والے الیکشن سے قبل حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی ایک نئی مہم کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
اتوار کو ملک کے کئی مقات پر احتجاج کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
ہفتے کو ہونے والے مظاہرے میں اندازوں کے مطابق لگ بھگ ایک لاکھ افراد شریک تھے جو ملک میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کے لیے وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ڈھاکہ کی پولیس نے گزشتہ دو ہفتوں میں لگ بھگ دو ہزار افراد کو پر تشدد احتجاج کے الزامات کے تحت گرفتار کیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ نے پر تشدد کارروائیوں کی مذمت کی ہے جب کہ ویزا پابندیوں کا بھی انتباہ جاری کیا ہے۔
(اس تحریر میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)