بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق اہل کاروں کو قطر کی ایک عدالت کی جانب سے جمعرات کو سنائے جانے والے سزائے موت کے فیصلے پر بھارت میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔
عالمی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں بلاتاخیر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
ماہرین کے مطابق بھارت کو قانونی اور سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے سزا کو معاف یا کم کرانے کی کوشش تیز کرنی چاہیے۔
گرفتار شدگان کے اہلِ خانہ نے پیر کو وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کی اور اس معاملے کو جلد از جلد حل کرنے کی اپیل کی۔
ایس جے شنکر نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ انہوں نے گرفتار شدگان کے اہلِ خانہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ حکومت اس معاملے کو انتہائی اہمیت دیتی ہے۔
خیال رہے کہ قطر نے بھارتی نیوی کے ان افسران کو جاسوسی کے الزام میں گزشتہ برس اگست میں گرفتار کیا تھا۔
عرب نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق گرفتار شدگان کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔
بحریہ کے سربراہ آر ہری کمار نے کہا کہ حکومت گرفتار اہل کاروں کی رہائی کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
اُنہوں نے بحریہ کی ایک تقریب کے دوران گوا میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو فیصلے کی نقل تاحال نہیں ملی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے بعد بھارتی میڈیا میں بھی اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔
گرفتار شدگان میں کیپٹن نوتیج سنگھ گل، کیپٹن سوربھ وشسٹ، کمانڈر پُرنیندو تیواری، کیپٹن بیریند رکمار ورما، کمانڈر سوگوناکر پکالا، کمانڈر سنجیو گپتا، کمانڈر امت ناگپال اور سیلر راگیش شامل ہیں۔
ان اہل کاروں نے بھارتی بحریہ میں 20 برس کی ملازمت کے بعد زیادہ بہتر مواقع کی تلاش میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لی اور قطر کی کمپنی ’ال دہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی سروسز‘ میں ملازمت اختیار کی۔
مذکورہ کمپنی نے قطر کے بحری اہل کاروں کو ٹریننگ دینے کا ایک معاہدہ ’قطری امیری نیول فورس‘ (کیو ای این ایف) کے ساتھ کیا تھا۔
اس نے اٹلی کی ایک جہاز ساز کمپنی کے ساتھ بھی آبدوز بنانے اور بحری اڈے اور فوج کی دیکھ بھال کے لیے ایک معاہدہ کیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق اس پر نفاذ نہیں ہو سکا۔ کمپنی بھی رواں سال کے مئی میں بند ہو گئی۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی اہل کاروں پر اٹلی کے ساتھ کیے جانے والے مذکورہ معاہدے کی تفصیلات اسرائیل کو فراہم کرنے کا الزام ہے۔
اسرائیل نے تاحال اس پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ لیکن الجزیرہ کا کہنا ہے کہ تل ابیب نے مشرق وسطیٰ میں فوجی ٹیکنالوجی کی ترقی کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ کیوں کہ اس کو خدشہ ہے کہ اس صورت میں خطے میں اس کی فوجی برتری متاثر ہو سکتی ہے۔
ابھی تک نہ تو قطر کی حکومت نے اس الزام کے بارے میں کچھ کہا ہے نہ ہی بھارت کی حکومت نے۔ البتہ گرفتار شدگان کے اہل خانہ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
الجزیرہ میں رپورٹ کی اشاعت کے بعد بھارتی اخباروں ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز اور دی ہندو وغیرہ میں اس سلسلے میں رپوٹس شائع ہوتی رہیں اور یہ بتایا جاتا رہا کہ گرفتار شدگان کے خلاف جاسوسی کے الزام میں قطر میں مقدمہ چل رہا ہے۔
اپوزیشن کی تنقید
اس معاملے پر اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمان منیش تیواری نے کہا کہ انھوں نے اس معاملے کو گزشتہ سال دسمبر میں لوک سبھا میں اٹھایا تھا۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم کو اس معاملے کو قطری حکومت میں اعلیٰ سطح پر اٹھانا چاہیے اور سزائے موت کو ختم کرا کے اہل کاروں کو بھارت واپس لانا چاہیے۔
سینئر کانگریس رہنما اور رکن پارلیمان ششی تھرور نے بھی وزیرِ اعظم سے مطالبہ کیا کہ ان اہل کاروں کو بھارت واپس لانے کی کوشش کریں۔ انھوں نے اس معاملے کو پراسرار قرار دیا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اگست میں اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھایا تھا۔
ان کے بقول وزیرِ اعظم مودی کہتے ہیں کہ اسلامی ممالک ان سے بہت پیار کرتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ سابقہ اہل کاروں کو واپس لائیں۔ سزائے موت کا فیصلہ بہت افسوسناک ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ پاکستان میں سزائے موت کے منتظر بھارتی بحریہ کے سابق کمانڈر کلبھوشن جادھو کے کیس جیسا ہے۔ البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ قطر کے ساتھ بھارت کے تعلقات قدرے بہتر ہیں جب کہ پاکستان کے ساتھ نہیں۔
'یہ فیصلہ اچانک نہیں آیا'
مغربی ایشیا کے امور کے ماہر پروفیسر اے کے پاشا کا کہنا ہے کہ قطری عدالت کا فیصلہ اچانک نہیں آیا ہے۔ کافی دنوں سے بھارت قطر تعلقات میں گرمجوشی کی کمی دیکھی جا رہی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ قطر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت کے اقدامات، بھارتی مسلمانوں کے ساتھ برتے جانے والے رویے، مسلمانوں کے بارے میں بی جے پی رہنماؤں کے بیانات اور دیگر معاملات کی وجہ سے ناراض تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ قطر کشمیر کے سلسلے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرانا چاہتا تھا جسے بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔
الجزیرہ چینل کو بھارت میں اجازت ملنے کے سلسلے میں بھی اختلافات پیدا ہوئے تھے۔ لیکن جب بھارت میں گیس کی قلت ہوئی اور قطر نے اس کی ضرورت پوری کی تو اس معاملے میں اختلافات ختم ہوئے۔
یاد رہے کہ کشمیر کے سلسلے میں بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت یا ثالثی کے خلاف ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پورا کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور اس پر کوئی ثالثی نہیں ہو سکتی۔
اسرائیل کی حمایت، بھارت سے قطر کی ناراضی کی وجہ؟
سوشل میڈیا میں ایسی قیاس آرائیاں ہیں کہ اسرائیل میں حماس کے حملوں کے بعد بھارتی وزیرِ اعظم نے جس طرح حماس کے حملوں کو دہشت گردی قرار دیا اور اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا تو اس سے قطر میں بھارت مخالف جذبات تیز ہو گئے۔
اے کے پاشا بھارت قطر رشتوں میں سردمہری کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھولا تو بھارت کی کوشش تھی کہ اعتدال پسند طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ لیکن اس بارے میں قطر سے کوئی خاص مدد نہیں ملی۔ لہٰذا بھارت اپنی اس کوشش میں ناکام رہا۔
وہ کہتے ہیں کہ سزاے موت کا معاملہ بہت بڑا ہے۔ بھارت کو اس کی امید نہیں تھی۔ لیکن اس بارے میں قطر کی پوزیشن مضبوط اور بھارت کی کمزور ہے۔
ان کے خیال میں وہ نہیں سمجھتے کہ یہ معاملہ جلد حل ہو گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مودی حکومت میں بھارت کی خارجہ پالیسی کنفیوژن کی شکار ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قطر بھارت کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ 2022 میں باہمی تجارت 17.2 ارب ڈالر تھی۔ قطر بھارت کو گیس کا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ تقریباً ساڑھے سات لاکھ بھارتی قطر میں رہتے ہیں۔ بھارت کی متعدد کمپنیاں وہاں سرگرم ہیں۔ اس کے باوجود متعدد امور پر دونوں میں اختلافات ہیں۔
سینئر تجزیہ کار آدیتی بھادری نیوز ویب سائٹ‘دی کوئنٹ‘ کے لیے اپنے تجزیے میں لکھتی ہیں کہ جب بی جے پی رہنما نوپور شرمانے متنازع بیان دیا تھا تو اس کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج کی قیادت قطر نے ہی کی تھی۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس بی جے پی کی رہنما نوپور شرما نے ایک ٹیلی ویژن مباحثے میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں متنازع باتیں کہی تھیں جس پر خلیجی ملکوں نے سخت احتجاج کیا تھا اور بھارت کو سفارتی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اے کے پاشا کے مطابق نوپور شرما کے تنازعے کے وقت قطر نے بہت سے بھارتی شہریوں کو واپس کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن دونوں ملکوں میں اعلیٰ سطحی سفارت کاری سے اس معاملے کو حل کر لیا گیا تھا۔
قطر نے بھارتی مصور ایم ایف حسین کو شہریت دی تھی جن پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کا الزام تھا۔ اس نے فیفا ورلڈ کپ کے دوران بھارت کو مطلوب ٹی وی مبلغ ذاکر نائیک کو تبلیغ کا پلیٹ فارم دیا تھا۔
جہاں تک بھارت کے سامنے آپشنز کی بات ہے تو ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت قطر کے قانونی ماہرین کی مدد سے فیصلے کے خلاف وہاں کی اعلیٰ عدالت میں اپیل یا پھر قطر کے امیر کے سامنے رحم کی اپیل کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں 2015 میں کیے جانے والے معاہدے کو فعال کر سکتا ہے۔ یہ معاہدہ قطر کے کے دورے میں ہوا تھا۔
معاہدے کے مطابق کسی جرم میں سزا یافتہ شخص کو اس کے ملک واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سزائے موت کو عمر قید میں بدلا جائے۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ تمام متبادل ناکام ہو جائیں تو بھارت عالمی عدالت انصاف سے رجوع کر سکتا ہے۔
فورم