"میرا بیٹا جیل میں 32 دن گزار کر آیا ہے اور جب سے وہ آیا ہے شدید خوف زدہ ہے۔ نہ وہ گھر سے باہر جاتا ہے نہ ہی کام پر جاسکتا ہے۔" یہ کہنا ہے جمعہ دین کا جو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں قائم افغان بستی کے رہائشی ہیں۔
جمعہ دین کے 18 سالہ بیٹے باسط کو پولیس نے اس وقت غیر قانونی پناہ گزین کے الزام میں گرفتار کیا تھا جب باسط کے پاس افغان سٹیزن کارڈ موجود تھا۔
سلمیٰ بی بی کے 15 سالہ بیٹے کو سبزی منڈی میں اس کے مالک نے یہ کہا کہ جتنی جلدی ممکن ہو تم افغانستان لوٹ جاؤ، تم یتیم ہو اگر پولیس نے پکڑ لیا تو تمہاری بیوہ ماں تمہاری رہائی کے لیے کہاں کہاں دھکے کھائے گی؟
سلمی کے مطابق وہ بہت ڈر گئی ہیں اس لیے اپنے بچوں کو لے کر افغانستان جا رہی ہیں جہاں ان کے لیے کچھ بھی نہیں۔
پاکستان کے شہر کراچی میں مقیم افغان بستیوں میں بسے افغان پناہ گزینوں سے بات کی جائے تو اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ پولیس ان کے بچوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے جنہیں وہ پیسے دے کر چھڑواتے ہیں۔
راز کی عمر بھی 15 برس ہے۔ وہ موٹر سائیکل ریڑھی پر سبزی ڈال کر فروخت کرتے ہیں لیکن انہیں ناردن بائی پاس پر پولیس نے روک کر پیسے لیے اور کہا کہ اگر دوبارہ پیسے نہیں دیے تو تھانے لے جائیں گے۔ یہ سن کر ان کی والدہ نے بیٹے کے گھر سے باہر جانے پر پابندی لگا دی۔
یہی نہیں شہر میں کوڑا چننے والے کئی درجن بچوں کو یہ کہہ کر کہ وہ غیر قانونی ہیں، عدالتوں میں پیش کیا جارہا ہے جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے ملک بھر سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو رضاکارانہ طور پر جانے کی تاریخ 31 اکتوبر کو ختم ہوچکی ہے۔ حکومتی دعوے کے مطابق اب تک ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد غیر قانونی افغان باشندے وطن لوٹ چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد ہے۔
اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونائٹڈ نیشنز ہائی کمیشن فار ریفیوجیز (یو این ایچ سی آر )، انٹر نیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن(آی او ایم)، یو نائٹڈ نیشنز چلڈرن فنڈ اور یونائٹڈ نیشنز مائیگریشن ایجنسی نے اپنے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں مہاجرین کی نقل مکانی اور جبراً بے دخلی کے دوران خواتین اور بچوں کو درپیش آنے والی مشکلات اور مسائل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بیان کے مطابق اب تک کی ہونے والی نقل مکانی میں 86 فی صد خاندانوں نےگرفتاریوں کے ڈر اور خوف سے افغانستان کا رخ کیا ہے۔
آئی او ایم کے مطابق انہیں ایسی بہت سی رپورٹس موصول ہوئی ہیں جس میں وہ افغان شہری جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود ہیں، بجائے انہیں تحفظ دیا جائے انہیں بھی ہراساں کیا جارہا ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔گرفتاریوں اور ملک بدر کرنے جیسے اقدامات ان تمام صورتِ حال میں ان بچوں کو اپنے خاندان سے بچھڑنے، ڈر خوف، جسمانی اور ذہنی اذیت اور غیر محفوظ رہنے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے بچوں کی بے دخلی سے ان کی تعلیم و صحت، خوراک اور پناہ کے بھی شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
آئی او ایم کے چیف آف مشن میوساتو کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان میں تمام اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسےخاندان خصوصاً خواتین اور بچوں کو زبردستی افغانستان نہ بھیجیں جہاں پہلے سے ہی ان کی زندگی داو پر لگی ہو۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یو این ایچ سی آر اور آئی او ایم حکومتِ پاکستان کو ایسے تمام افراد کو رجسٹر اور ان کی اسکریننگ کرنے میں معاونت فراہم کرنے میں مدد دینے کو تیار ہے جنہیں پاکستان میں تحفظ درکار ہے۔
افغان پناہ گزینوں کی نمائندگی کرنے والے افغان رہنما حاجی عبداللہ بخاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک بہت سے کارڈ ہولڈر پناہ گزین ملی رکی عدالت سے رہائی کےمنتظر ہیں۔ ایسے بہت سے غیر قانونی اور قانونی پناہ گزین جن میں بچے بھی شامل ہیں لانڈھی جیل میں قید ہیں جنہیں رہائی کے بجائے ملک بدر کیے جانے کا امکان ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں وہ خاندان جن کے بچے قید میں ہیں اور انہیں رہائی کی امید نظر نہیں آرہی اگر انہیں ملک بدر کردیا گیا تو یہ خاندان صدمے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب حکومتِ پاکستان کا تارکین وطن کی بے دخلی پر مؤقف ہے کہ یہ فیصلہ ملک کو درپیش دہشت گردی جیسے مسئلے کے خاتمے اور سلامتی و تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے لیا گیا ہے، کیوں کہ ایسی کارروائیوں میں غیر قانونی افراد کے ملوث ہونے کے ثبوت حکومت کے پاس ہیں۔
حکومت کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام تارکینِ وطن دی جانے والی مہلت کے دوران اپنی مرضی سے افغانستان لوٹے ہیں، حکومت کی جانب سے کوئی زبردستی نہیں کی گئی۔
عالمی تنظیموں کی جانب سے بڑھتے دباؤ اور خواتین اور بچوں کے ساتھ نرمی برتنے کی اپیل پر حکومت کا مؤقف ہے کہ ان کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کوپہلے سے ہی سختی سے احکامات دیے گئے ہیں کہ وہ خواتین اور بچوں کے ساتھ احترام سے پیش آئیں۔
البتہ افغان پناہ گزینوں کی جانب سے ایسی شکایات مسلسل سامنے آرہی ہین جن میں وہ اپنے بچوں کی گرفتاریوں اور حراست میں لیے جانے سے خوف زدہ دکھائی دے رہے ہیں۔
فورم