رسائی کے لنکس

اسرائیل حماس جنگ کے بعد امریکی حکمتِ عملی کیا ہوگی ؟


صدر بائیڈن اسرائیل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دے رہے ہیں۔ فوٹو اے پی
صدر بائیڈن اسرائیل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دے رہے ہیں۔ فوٹو اے پی

امریکہ کے صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے سات اکتوبر کو حملے اور پھر اسرائیل کی تباہ کن جوابی کارروائیوں کے بعد اسرائیل فلسطین تنازع میں پہلے والا"اسٹیٹس کو" بحال نہیں ہو سکتا۔ لیکن خطے میں ایک نئی سمت متعین کرنے کے لیے امریکی مؤقف میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔

کئی دہائیوں تک اسرائیل فلسطینیوں کے تنازع سے نمٹنے کی کوشش کے بعد امریکہ کو اب کچھ مجبوریوں کا سامنا ہے کہ، وہ خطے میں حالات پر کیسے اثرانداز ہو سکتا ہے۔

جنگ کے آغاز پر امریکہ نے اپنے اتحادی کی کھل کر حمایت کی تھی لیکن جنگ کے ایک ماہ بعد، امریکہ کی اسرائیل کے لیے غیر مبہم حمایت نے جنگ کی پیچیدگیوں میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن اب بائیڈن انتظامیہ اسرائیل سے التجا کر رہی ہے کہ وہ غزہ میں عام شہریوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے اپنی بعض فوجی کارروائیوں کو لگام ڈالے۔

حماس کے اسرائیل پر حملے تک، بائیڈن انتظامیہ نے بڑے پیمانے پر خطے کو نظر انداز کر رکھا تھا، کیوں کہ اس کی توجہ ایشیا پر مرکوز تھی اور پھر یوکرین پر روس کے حملے کا جواب دینے پر۔ اب صدر بائیڈن کو ایک ایسے چیلنج کا سامنا ہے جس نے اندرونِ ملک ان کی سیاسی حمایت اور بیرونِ ملک امریکی اتحادیوں کے اتحاد کو منتشر کر دیا ہے۔

مبصرین کہتے ہیں اگر اسرائیل حماس کو کمزور کرنے یا ختم کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے، تب بھی امریکہ کو اپنے مؤقف میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی، ماضی میں امریکی انتظامیہ مشرقِ وسطیٰ کے تنازع سے اپنے طریقے سے نمٹنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔لیکن موجودہ حالات میں آگے بڑھنے کا راستہ بالکل غیر یقینی ہے ۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ سے منسلک پروفیسر شبلی تلہامی کہتے ہیں "یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اس پر کسی کو ندامت ہے " ۔

ان کے خیال میں ہو سکتا ہے کہ غزہ میں تشدد کا ایک دور چلتا ر ہے جو کہ آنے والے کئی مہینوں یا سالوں تک ہو ۔ لیکن "اگر کچھ ممکن ہے تو، وہ صرف میز پر ایک منصوبہ رکھنا نہیں ۔ امریکہ کو اپنا نیا مؤقف اپنانا ہوگا جو تبدیلی لا سکے ، جو مختلف ہو، کچھ ایسا جو ہم نے پہلے نہیں دیکھا۔"

پروفیسر شبلی کہتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے بھرپور حمایت کے بعد صدر جو بائیڈن کو تنازع کا سیاسی حل نکالنے کے لیے یکساں طور پر ڈرامائی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی اور فلسطینیوں کی حمایت چاہیے ہوگی، جس کا آغاز مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو روکنے سے ہو گا، جسے فلسطینی اپنے مستقبل کی ریاست کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں ۔

حالیہ ہفتوں میں، امریکی حکام نے حماس کے بعد غزہ میں حکمرانی کے حوالے سے اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کی ہے اور دو ریاستی حل کے نظریے کو دوبارہ اٹھایا ہے ۔

صدر بائیڈن نے اتوار کو قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے اظہار خیال کے دوران کہا تھا کہ "مستقبل کی ایک فلسطینی ریاست جہاں اسرائیلی اور فلسطینی یکساں طور پر استحکام اور وقار کے ساتھ شانہ بشانہ رہ سکیں۔"

اسرائیل فلسطین تنازع: دو ریاستی حل کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:58 0:00

دو ریاستی حل کے مقصد تک پہنچنے کے طریقہ کار پر بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔بائیڈن انتظامیہ میں سے کچھ عہدیداروں میں یہ تشویش بڑھی ہے کہ غزہ میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس مقصد کے حصول کو مزید مشکل بنا دے گی۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن گزشتہ ہفتے اسرائیل پر تنقید کرتے نظر آئے جن کا کہنا تھا کہ وہ عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا ۔

انہوں نے مغربی کنارے اور غزہ دونوں میں حکمرانی واپس مسشترکہ طور پر فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی نے 2007 میں غزہ پر کنٹرول کھو دیا تھا، اور اسے اسرائیل کے ساتھ معاونت کے تاثر کی وجہ سے اپنے ہی عوام میں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اتوار کو ایک نظریہ پیش کیا کہ امریکہ اس تنازع کے حل کے لیے کیسے آگے بڑھنا چاہتاہے ۔

سی بی ایس کے "فیس دی نیشن" پر ایک انٹرویو میں سلیوان نے کہا کہ "آگے بڑھنے کے بنیادی اصول سادہ سے ہیں۔ اس راہ میں غزہ پر دوبارہ قبضہ نہیں، نہ ہی فلسطینی عوام کی زبردستی بے گھری شامل ہے۔ غزہ کو مستقبل میں دہشت گردی کے اڈے کے طور پر کبھی استعمال نہیں کیا جا سکتا اور غزہ کی سرزمین کو کم نہیں کیا جانا چاہیے۔"

فلسطینی اتھارٹی نے کھلے عام اس تصور کو مسترد کر دیا ہے۔اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد شتیہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "ہم اسرائیلی فوجی ٹینک پر غزہ نہیں جائیں گے۔"

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں سیاسیات اور بین الاقوامی امور کے ، پروفیسر نیتھن براؤن کہتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ وہ تب تک ایسی کوئی ذمہ داری نہیں لینا چاہتی جس پر بائیڈن انتظامیہ زور دے رہی ہے کیوں کہ ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک دو ریاستی حل کے لیے کسی بڑےسفارتی اقدام کے لیے کسی قسم کا حقیقی عزم نہ ہو ۔

جنگ کا اختتام کیسے ہو؟

جنگ کا اختتام کیا ہو اس پر امریکی اور اسرائیلی مؤقف میں اختلافات کے اشارے بھی ہیں۔ وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ اسرائیل طویل مدت تک غزہ پر سیکیورٹی کنٹرول برقرار رکھے گا جب کہ امریکہ نے اسرائیلی مؤقف کو مسترد کر دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے ایسے کسی متبادل کو بھی مسترد کر دیا ہے جس میں بین الاقوامی مانیٹرنگ فورس کا قیام ہو ۔

نیتن یاہو نے این بی سی کے "میٹ دی پریس" سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "ابھی واحد قوت جو یہ ضمانت دے سکتی ہے کہ حماس، یا دہشت گردی دوبارہ نمودار نہ ہو اور غزہ پر دوبارہ قبضہ نہ کرے ، وہ اسرائیلی فوج ہے۔لہٰذا مجموعی طور پر، فوجی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوگی۔"

فورم

XS
SM
MD
LG