مالدیپ کے نئے صدر محمد موئزو اپنے ملک میں بھارت کی فوجی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے تیزی سے کام کررہے ہیں جس کا وعدہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیا تھا ۔نئے صدر نے نئی دہلی سے باضابطہ طور پرکہا ہے کہ وہ بحر ہند کے جزیرے سے اپنے فوجی دستوں کو نکال لے۔
ان کی انتظامیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ کیے گئے 100 سے زائد معاہدوں کا جائزہ لے رہی ہےجن میں سے کچھ کا تعلق دفاع اور سلامتی کے شعبے سے ہے۔
تجزیہ کار اس صورتحال کو بھارت کی ان کوششوں کے لیے ایک دھچکا قرار دیتے ہیں جو وہ اپنے جنوب میں اس چھوٹےلیکن اسٹریٹجک طور پر واقع ملک میں چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے کرتا ہے۔ مالدیپ کے نئے صدر موئزو کو چین کے حامی رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کے بیجنگ کی طرف جھکاؤ کا امکان ہے۔
مالدیپ کے سابق صدر ابراہیم محمد صالح کی سابقہ انتظامیہ کے دوران مالے کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات میں نمایاں طور پر پیش رفت ہوئی ۔ سابق انتظامیہ نے ’’انڈیا فرسٹ‘‘کی پالیسی پر عمل کیا۔ موئزو نے ’’انڈیا آؤٹ‘‘ مؤقف اپناتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلائی اور کہا کہ ملک میں بھارت کی فوجی موجودگی مالدیپ کی خودمختاری پرسمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔
موئزو ،جن 77 فوجی اہلکاروں کو واپس بھارت بھیجنے کے خواہاں ہیں ، ان میں بنیادی طور پر پائلٹ، عملہ اور تکنیکی ماہرین شامل ہیں جو دو ہیلی کاپٹر اور ایک ہوائی جہاز چلاتے ہیں اور جزیرے کوبحری نگرانی، تلاش اور بچاؤ کی کارروائیوں اور طبی انخلاء میں مدد فراہم کرتے ہیں۔لیکن مالدیپ میں انتخابی مہم کے دوران ان افراد کی موجودگی کو ’’فوجی موجودگی‘‘ کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔
یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے ریسرچ فیلو اور مالدیپ کے تجزیہ کار عظیم ظہیر کہتے ہیں کہ ’’ جس طرح الیکشن کے دوران اس معاملے کو پیش کیا گیا، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ ملک میں بھارتی فوجی موجودگی بھرپور انداز میں ہے اور اس مؤقف سے عوامی جذبات کو متاثر کیا جا سکتا تھا۔لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔
حکومت میں آنے کے بعدجب انہوں نے اعداد و شمار جاری کیے تو یہ صرف 77 اہلکار وں کی موجودگی تھی۔ چین کی 2013 سے 18 20 کے دوران مالدیپ میں نمایاں موجودگی دیکھی گئی جب اس کی بیجنگ سے قربت بڑھی اور وہ اس کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو میں شامل ہوا۔
چین کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک 200 ملین ڈالر کی لاگت سے بنایا جانے والا چار رویہ پل ہے جو مالے کواس بین الاقوامی ہوائی اڈے سے منسلک کرتا ہے جو ایک مختلف جزیرے پر واقع ہے۔
نئی دہلی کا اثر و رسوخ گزشتہ پانچ برسوں میں بھارت نواز صالح انتظامیہ کے تحت بڑھ گیا تھا ۔ ستمبر کے انتخابات میں صالح حکومت اقتدار سے محروم ہو گئی۔ ان انتخابات کو اس حوالے سے ایک ورچوئل ریفرنڈم کہا گیا تھا کہ مالدیپ میں ان دو ایشیائی ممالک یعنی بھارت اور چین میں سے کس کا زیادہ اثرو رسوخ ہوگا۔
موئزونےاپنی حلف برداری کے موقع پر کہا کہ وہ ’’ واضح طور پر آزادی اور خودمختاری کی حدود کا تعین کریں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’ میں بیرونی ممالک کے ساتھ دوستی برقرار رکھوں گا۔ قریب اور دور کے ممالک سے کوئی دشمنی نہیں ہوگی۔
‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بھارت اور چین دونوں کے ساتھ مضبوط سرمایہ کاری تعلقات کی کوشش کریں گے۔
نئی دہلی میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ صدر موئزو ان دو ایشیائی حریف ممالک کے درمیان اپنے تعلقات کو کس طرح قائم رکھیں گے ۔
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں اسٹڈیز اینڈ فارن پالیسی کے نائب صدر ہرش پنٹ کہتے ہیں کہ’’مالدیپ جیسے ممالک ایسے وقت میں بہت اہم ہو گئے ہیں جب بحر ہند کے علاقے میں بڑی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی بہت واضح ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
امریکہ نے مالدیپ کی بڑھتی ہوئی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں ستمبر میں مالے میں ایک سفارت خانہ کھولا جبکہ آسٹریلیا نے مئی میں ہائی کمیشن قائم کیا۔
نئی دہلی میں کالنگا انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پیسیفک اسٹڈیز کے بانی چنتامنی مہاپاترا کے مطابق’’ نئے صدر کا بھارتی فوجی اہلکاروں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ نہ صرف بھارت بلکہ کواڈ ممالک کے لیے بھی ایک دھچکا ہے۔یہ ممالک چاہتے تھے کہ مالدیپ انڈو پیسیفک خطے میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں حصہ لے۔‘‘
کواڈ گروپنگ میں شامل آسٹریلیا، بھارت ، جاپان اور امریکہ کا مقصد بحر ہند اور بحرالکاہلی خطے میں چین کا مقابلہ کرنا ہے۔مہاپاترا نے کہا کہ چین کے لیے مالدیپ کے ساتھ قریبی تعلقات بحر ہند میں اس کی رسائی کو مزید بڑھانے میں مدد کر سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اس بات کا انتظار کرے گا کہ نئی انتظامیہ کی پالیسیاں کیا شکل اختیار کرتی ہیں ۔پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق، نئی دہلی اور مالے نے گزشتہ ہفتے کے روز اتفاق کیا ہےکہ بھارت کے ہیلی کاپٹروں اور ہوائی جہازوں کے استعمال کو جاری رکھنے کے لیے "قابل عمل حل" پر بات چیت جاری رکھی جائے گی۔
مالدیپ کے نئے صدر موئزو اور بھارت کے ارتھ سائنسز کے وزیر کرن رجیجو کے درمیان مالے میں ہونے والی ملاقات کے بعد یہ بات طے کی گئی ہے۔ نئی دہلی نے کہا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس کے فوجی اہلکاروں نے انخلا کی 500 سے زیادہ سر گرمیوں میں حصہ لیا۔
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں اسٹڈیز اینڈ فارن پالیسی کے نائب صدر ہرش پنٹ کہتے ہیں کہ ’’ یہ بات تو طے ہے کہ بھارت مالدیپ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ لیکن مالدیپ بھی بھارت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
بھارت یہ جائزہ لے گا کہ نئی حکومت کی وجہ سے یہ توازن کس طرح متاثر ہوتا ہے جو ممکنہ طور پر چین کے حامی جذبات کی بنیاد پر اقتدار میں آئی ہے۔ لیکن اسے اپنے دور اقتدار میں زمینی حقائق پر غور کرنا پڑے گا۔ ‘‘
فورم