پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے 'ڈاکٹر اکبر نیازی ٹیچنگ اسپتال 'میں خؤاتین میں سرویکل کینسر کی تشخیص اب آرٹیفیشل انٹیلی جینس(اے آئی) کے ذریعے کی جائے گی۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہوگا۔
اسپتال نے یہ ٹیکنالوجی چین کی مدد سے حاصل کی ہے اور حکام کو امید ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے اس عارضے کے سامنے آنے والے اوسطاًسالانہ پانچ ہزار کیسز کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
دنیا کے مختلف ممالک میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ذریعےنہ صرف طب بلکہ کئی شعبوں میں تحقیق کے لیے اس کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ دفاعی میدان سمیت کئی شعبوں میں اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت کے استعمال سے آنے والی تبدیلیاں جہاں ٹیکنالوجی میں ایک نیا سنگِ میل ثابت ہو رہی ہیں ، وہیں ماہرین کو اس بارے میں کئی خدشات اور تحفظات کا سامنا بھی ہے۔
پاکستان میں بھی اس حوالے سے قانون سازی کے لیے مختلف تجاویز سامنے آئی ہیں جن پر غور و فکر جاری ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جینس کیا ہے؟
لاہور میں مقیم انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) ایکسپرٹ طلحہ احمد کا کہنا ہے کہ آسان الفاظ میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی بھی مخصوص چیز یا موضوع پر انٹرنیٹ پر موجود معلومات کے ذخیرے کو یکجا کرکے اس کو پروگرامنگ کی مدد سے مواد کی شکل میں تبدیل کرکے پیش کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر آپ یہ سمجھ لیں کہ اگر آپ کو یہ معلوم کرنا ہو کہ کراچی میں چائینیز کھانے کے لیے کون سے بہترین ریستوران موجود ہیں۔ تو آرٹیفیشل انٹیلی جینس فیس بک، ایکس اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سمیت بکنگ ویب سائٹس وغیرہ سے حاصل شدہ مواد کی بناٗ پر آپ کو کئی مقامات سے متعلق آگاہ کرنے کے قابل ہو گی۔
طلحہ احمد کے خیال میں مصنوعی ذہانت کے ساتھ مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب اس نظام کا مقابلہ انسانی ذہانت سے کرنا شروع کردیا جائے یا وہ اس سے آگے نکل جائے۔ایسے میں یہ انسانی بقا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہےاور ایسے خدشات کا اظہار خود اس کے مؤجد جیفری ہنٹن نے بھی کیا تھا۔
پاکستان کا مصنوعی ذہانت کی پالیسی کا مسودہ
دوسری جانب حکومت کی طرف سے قومی مصنوعی ذہانت کی پالیسی 2022 کا مسودہ تیار ہوچکا ہے جس کا مقصد پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت اور معاشرے کی طرف فعال کرنے کے لیے "صارف کی سہولت اور شواہد پر مبنی، مستقبل کے حوالے سے چست پالیسی فریم ورک" کی تیاری بتایا جاتا ہے۔
پالیسی مسودے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس نوجوان آبادی کو تعلیم دے کر ڈیجیٹل دنیا سے فائدہ اٹھانے کا ایک منفرد موقع موجود ہے جو ہمارے قومی مستقبل کو سدھارنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
پالیسی پیپر کے مطابق اس کا مقصد شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ آرٹیفیشل انٹیلی جینس ٹیکنالوجی کے ذمے دارانہ اور شفاف استعمال کو یقینی بنانا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی پالیسی کی تیاری پاکستان کو علم پر مبنی معیشت میں تبدیل کرنے کے لیے اہم سنگ میل ہے۔ لیکن ابھی اس پر بہت سا کام باقی ہے۔
طلحہ احمد کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ٹیکنالوجیز کا مستقبل ہے اور اس کی آمد کو اب روکا نہیں جا سکتا۔ خاص طور پر خدمات کے شعبے میں اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کا یہ واحد راستہ ہے۔
انہوں نے کہا اس سلسلے میں قابل عمل فریم ورک اپنانے کے لیے ضروری نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ایک قومی حکمتِ عملی بنانا ضروری ہوگیا ہے۔
طلحہ احمد کے بقول پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں 64 فی صد نوجوان ہیں اور ان کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ اتنی بڑی نوجوان آبادی کے ساتھ ملک کو نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہر شعبے میں معاشی فوائد سمیٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اب تک صدارتی اقدام برائے مصنوعی ذہانت، سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلی جینس اینڈ کمپیوٹنگ کا قیام، نیشنل سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور سائنو پارک سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا قیام اہم کوشش ہے۔ تاہم ان کے بقول ان اداروں کے قومی ترقی میں اثرات ممکن بنانے کے لیے پالیسی اپنانا اہم ہے۔
'اے آئی کا غلط استعمال روکنے کے لیے بھی فریم ورک ضروری ہے
امریکہ اور یورپ کی مارکیٹ کے لیے مختلف ایپس پر کام کرنے والی کمپنی ٹیک اسٹارٹ میں انجینئرنگ مینیجر نعمان حیدر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مصنوعی ذہانت میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے اور یہ ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کو تیز کرنے میں مددگار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیےکسی قانونی فریم ورک کی کمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں کو اس مسئلے کو ابتدائی مرحلے میں ہی حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کو روکا اور مثبت استعمال کو بروئے کار لایا جاسکے۔
ادھر سیکریٹری خارجہ سائرس قاضی نے اسی مسئلے پر گزشتہ ہفتے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو سائبر اسپیس اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز کے ذمہ دارانہ استعمال کو کنٹرول کرنے کے لیے قانونی طور پر پابند فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے بین الاقوامی تعاون ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام ممالک کے لیے نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز تک منصفانہ، غیر مشروط اور مساوی رسائی کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز تک رسائی پر غیر ضروری پابندیوں کی مخالفت کرتا ہے۔
فورم