بائیڈن انتظامیہ نے غزہ کی جنگ میں اسرائیلی حکومت کےطریقہ کار پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اختلافات عوامی طور پر ظاہر کرنا شروع کر دیے ہیں اگرچہ وہ اپنے اتحادی کی حمایت میں ابھی تک بیشتر ثابت قدم ہے۔
اس ہفتے بائیڈن نے غزہ میں، " اندھا دھند بمباری" کا حوالہ دیا اور قدامت پسند اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے اپنی مایوسی کا اظہار کیا ، جن کی حکومت کے بارے میں بائیڈن کا خیال ہے کہ وہ عالمی حمایت کھو رہی ہے۔
ڈیمو کریٹک امریکی انتظامیہ نے اس بارے میں کسی ٹائم ٹیبل پر بات کرنی بھی شروع کر دی ہے کہ اسرائیل کا انتہائی شدید فوجی آپریشن کتنی دیر تک جاری رہ سکتا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں انتباہ کیے جانے کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکی نائب صدر کاملا ہیرس اور امریکی وزیرخارجہ انٹنی بلنکن نے فلسطینی شہریوں کی بہت زیادہ تعداد میں ہلاکتوں اور شہریوں کی زندگیوں کے احترام کے بارے اسرائیل کے وعدوں اور زمینی حقیقت کے درمیان موجودخلا پر بات کی ۔
اسرائیل سات اکتوبرکو تنازعے کے آغاز کے بعدسے مسلسل غزہ پر بمباری کر تا رہا ہے جس میں نومبر کے آخر میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر صرف ایک مختصر وقفہ آیا تھا۔
امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے حال ہی میں اسرائیل کو اس بارے میں انتباہ کیا کہ کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا" اس قسم کی لڑائی میں شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ اور اگر آپ انہیں دشمن کے ہاتھوں میں دھکیل دیتے ہیں تو آپ ایک ٹیکٹیکل کامیابی کو اسٹرٹیجک شکست میں بدل دیں گے۔"
لیکن واشنگٹن نے ، جو اسرائیل کا ایک سب سے اہم سفارتی اور فوجی اتحادی ہے ، بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اپنے اتحادی پر کھلم کھلا تنقید کرنے میں احتیاط سے کام لیا ہے اور جنگ بندی کی اپیلوں کی مزاحمت کی ہے کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ اس سے حماس کو فائدہ پہنچے گا۔
در حقیقت امریکہ اسرائیل کے لیے اپنی حمایت میں دن بدن تنہا ہوتا جارہا ہے جیسا کہ منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ووٹنگ سے ظاہر ہوا جس میں جنگ بندی کے مطالبہ کی 153 رکن ملکوں نے منظوری دی ۔ اور صرف امریکہ اور نو دوسرے ملکوں نے اس کے خلاف ووٹ دیا جبکہ 23 غیر حاضر رہے۔
نظام الاوقات
یہ جنگ سات اکتوبر کو حماس کےعسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیل پر خونریز حملے سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے غزہ کےلوگوں کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانےوالی امداد کا راستہ کھولنے کے لیے اپنے اتحادی پر دباؤ ڈالا ہے،ساتھ ہی ان یرغمالوں کی رہائی کےلیے کام کیا ہے جنہیں حماس نے اغوا کیاتھا، اور ایک زیادہ ٹارگٹد ملٹری اسٹرٹیجی اپنائی ہے۔
امریکی سفارت کاروں نے نجی طور پراسرائیل کے جنگ کے طریقہ کارپر اپنے عدم اطمینان کو پوشیدہ نہیں رکھا۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اسرائیل پر امریکی دباؤ کی ایک علامت کےطور پر قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان جمعرات اور جمعے کو اسرائیل کا دورہ کر رہے ہیں
سلیوان نے منگل کو وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ ، میں یقینی طور پر اسرائیل کے وزیر اعظم، جنگی کابینہ اور سینیئر عہدے داروں سے ٹائم ٹیبل کے بارے میں بات کروں گا کہ وہ اس کے بارے میں کس طرح سوچ رہے ہیں، اور انہیں ان انتہائی شدید قسم کی فوجی کارروائیوں میں ایک تبدیلی کی تجویز دوں گا جو ہم گزشتہ ہفتوں میں دیکھ چکے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر عہدے دار نے کہا کہ بائیڈن نےبدھ کو وائٹ ہاؤس میں پہلی بار غزہ میں حماس کے پاس یرغمال رہنے والے امریکی خاندانوں کا خیر مقدم کیا ۔
جنگ کے بعد کیا ہوگا؟
اگر اسرائیل کی جانب امریکی موقف میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس سے ملکی سیاسی صورتحال کی عکاسی بھی ہوگی۔
ایک غیر منافع بخش تھنک ٹینک، فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں مڈل ایسٹ پروگرام کے ڈائریکٹر جیمز ریان کہتے ہیں کہ،" اسرائیل کی جانب پالیسی کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ پر خود اپنی پارٹی اور انتخابی حلقے کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ ہے۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی تبدیلی اس بات کا بھی ایک اشارہ ہوگی کہ امریکہ کا اسرائیل پر اثر و رسوخ زیادہ نہیں رہا۔
اس بارے میں اختلافات بھی سامنے آرہے ہیں کہ جنگ کے خاتمے کے بعد کیا ہوگا؟
واشنگٹن دو ریاستی حل کو اسرائیلی فلسطینی مسئلے کا واحد پائیدار حل قرار دیتا ہے جسے اسرائیل مسترد کرتا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تنازعے کے بعد غزہ پر کون حکومت کرے گا ، تو ایک از سر نو تقویت پانے والی فلسطینی اتھارٹی کو باگ ڈور دینے پر امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلاف رائے ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم