غزہ میں جاری اسرائیل حماس لڑائی کے دوران امریکہ نے اگرچہ اپنے اتحادی کو مسلسل حمایت فراہم کی ہے لیکن ، ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنازعے کے بعد غزہ کے مستقبل کےبارے میں دونوں اتحادیوں میں اختلافات برقرار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس ہفتے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں اپنی سیکیورٹی فورسز کی موجودگی برقرار رکھنے کی پالیسی پر عمل کرے گا۔ جب کہ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی سرحد سے فلسطینیوں کو دور رکھنے کے لیے ایک بفر زون قائم کیا جائے گا۔ اسرائیلی حکام نے غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے دوبارہ احیاءکے امکان کو رد کیا ہے۔
محمود عباس کی سربراہی میں فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ جب کہ 2007 میں حماس کے ہاتھوں ایک الیکشن میں شکست کے بعد غزہ کا انتظام فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔
دوسری جانب امریکہ اس بارے میں مختلف نظریہ رکھتا ہے۔ اعلیٰ امریکی حکام نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ اسرائیل غزہ پر دوبارہ قبضہ کرے، یا پہلے سے ہی چھوٹی سی پٹی کا رقبہ مزید کم کرے۔ امریکی حکام نے غزہ میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کی واپسی پر زور دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امن مذاکرات شروع کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
اے پی کے مطابق حلیفوں کی جانب سے مختلف نظریات کے اظہار کی وجہ سے اسرائیل اور امریکہ کے درمیان اس حوالے سے بات چیت مشکل نہج پر پہنچ گئی ہے۔
سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد جہاں امریکہ نے اسرائیلی آپریشن کی، جس میں اب تک سولہ ہزار سے زائد فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں،مسلسل حمایت کی ہے، لیکن اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت پر اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس شہریوں کو بطور ڈھال استعمال کرتا ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ، ’’اگر آپ انہیں دشمن کے ہاتھوں میں دھکیل دیتے ہیں، تو آپ تدبیر سے حاصل جیت کو حکمت عملی کی ہار میں بدل دیتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ، ’’اس لیے میں نے اسرائیل کے لیڈروں پر بارہا واضح کیا ہے کہ غزہ میں شہریوں کی حفاظت نہ صرف ایک اخلاقی ذمہ داری ہے، بلکہ یہ جنگی نقطہ نظر سے بھی اہم ہے۔‘‘
امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے بھی جمعرات کے روز اپنے بیان میں کہا کہ شہری ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور یہ کہ اسرائیل کو انہیں محدود کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ بلنکن نے اسرائیل پر غزہ میں انسانی ہمدردی کی امداد میں اضافےپر بھی زور دیا۔
مختلف نظریات:
اسرائیل اور امریکہ کے درمیان، غزہ کے لیے طویل مستقبل کے بارے میں پالیسی اختلافات ہیں۔
نیتن یاہو جہاں غزہ میں اسرائیلی فورسز کی موجودگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں، وہیں انہوں نے بیرونی ممالک کے امن دستوں کے امکان کو بھی رد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کو غیر مسلح رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے بھی غزہ میں دوبارہ آنے کے امکان کو رد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محمود عباس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
نیتن یاہو کے مشیر اوفر فاک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ، ’’حماس کو ختم کرنے کے بعد، غزہ کو غیر مسلح اور انتہاپسندی سے پاک کیا جائے گا تاکہ وہاں سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہ رہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ غیر مسلح کرنے کے پروگرام کا ایک حصہ بفر زون بھی ہوگا۔
اسرائیل نے مغربی اتحادیوں اور ہمسایوں کو بفر زون کے منصوبے سے متعلق گزشتہ ہفتے ہی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ اے پی کے مطابق اس بارے میں اسے مصری، عرب اور مغربی سفارت کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی صورت میں آگاہ کیا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ جن ممالک کو اس منصوبے کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے ان میں مصر، قطر، اردن، ترکیہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ ایک مصری افسر کا کہنا ہے کہ اس بارے میں اسرائیل کے پاس کوئی قابلِ بھروسہ منصوبہ نہیں ہے، جس میں اس بفر زون کی چوڑائی بھی شامل ہے۔
بقول ایک افسر کے، ’’وہ بس اس بارے میں بتاتے ہیں، کہ ایک عارضی بفر زون قائم کیا جائے گا، لیکن جب ان سے اس بارے میں تفصیل پوچھی جاتی ہے، تو ان کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔‘‘
اگرچہ اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا، تاہم ایسے منصوبے وائٹ ہاؤس سے اسرائیل کے اختلاف کو ظاہر کرتے ہیں۔
بائیڈن اور دوسرے امریکی اعلیٰ عہدے داروں نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ غزہ میں جنگ کے بعد فلسطینی اتھارٹی کا احیا ءکیا جانا چاہئے اور اسرائیل کو دو ریاستی حل کی جانب بڑھنا چاہیے جس میں فلسطینی اتھارٹی بھی اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے اپنے منصوبوں میں غزہ کی سرحدوں کو تبدیل کرنے یا اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کے امکانات کو رد کیا ہے۔
نائب صدر کاملا ہیرس نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر دبئی میں بات کرتے ہوئے اس سلسلے میں امریکہ کی جانب سے واضح ترین پیغام دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا:
’’غزہ میں تنازعے کےبعد کی پالیسی سے متعلق پانچ نکات ہماری رہنمائی کرتے ہیں، غزہ کی آبادی کو جبری طور پر بے دخل نہیں کیا جائے گا، اسرائیل دوبارہ قبضہ نہیں کرے گا، دوبارہ سے محاصرہ یا ناکہ بندی نہیں کی جائے گی، غزہ کے علاقے میں کمی نہیں کی جائے گی، اور غزہ کو دوبارہ دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ مغربی کنارہ اور غزہ فلسطینی اتھارٹی کے تلے دوبارہ متحد ہوں،اور اس کام کے دوران فلسطینی آوازیں، اور خواہشات مرکزی حیثیت اختیار کریں۔‘‘
اسرائیلی روزنامہ ہاریٹز کے عسکری معاملات کے کالم نگار، ایمس ہیرل کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے کمانڈروں کا خیال ہے کہ نیتن یاہو داخلی سیاسی وجوہات، اور انتہائی دائیں بازو کے اپنے حکومتی اتحاد کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ معاملات طے نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو اور ان کا سخت موقف رکھنے والا اتحاد فلسطینی آزادی کے خلاف ہیں۔
یہ اختلاف کس قدر شدید نوعیت کے ہیں؟
اے پی کے مطابق ابھی تک دونوں حلیف حماس کو ختم کرنے کے ہدف پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی انٹیلی جنس کے سابقہ اعلیٰ عہدے دار لوڈیڈ شاویٹ نے اے پی کو بتایا کہ امریکہ بھی چاہتا ہے کہ اسرائیل اپنے عسکری اہداف حاصل کر سکے۔ کیونکہ مستقبل میں کسی بھی تبدیلی کا یہ نقطہ آغاز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قلیل مدت کے دوران امریکہ کا دباؤ فوری نوعیت کے مسائل پر ہوگا، جیسے شہری ہلاکتوں میں کمی، اور انسانی ہمدردی کی امداد کی بحالی۔
اے پی کے مطابق امریکہ نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ لڑائی کے اختتام کے بعد بھی کچھ حد تک صبر اختیار کرے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھو ملر نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ عسکری آپریشن کے بعد ایک دورانیہ تبدیلی کا ہوگا۔
لیکن غزہ میں شہری ہلاکتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے معاملات مسلسل بگڑ رہے ہیں۔ بائیڈن الیکشن کے سال میں داخل ہو رہے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد اسرائیلی آپریشن کو بند کرنے سے اتفاق کرتی ہے۔ اے پی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس وجہ سے آخری ہدف کے تعین کے بغیر ان اختلافات میں شدت آنے کا امکان ہے۔
شاویٹ کا کہنا ہے کہ دونوں حلیفوں میں کھچاو اس صورت میں آ سکتا ہے اگر امریکہ کو یہ احساس ہوا کہ اسرائیل معاملات کو طول دے رہا ہےیا امریکہ کے مطالبات سے گریز برت رہا ہے۔ لیکن فوری طور پر، بقول ان کے امریکہ اسرائیل کی کامیابی کی حمایت کرتا ہے۔
سابقہ اسرائیلی امن مذاکرات کے رکن ڈینئیل لیوی کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی کوئی قطعی موقف نہیں اپنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی شہری ہلاکتوں پر امریکہ کا نرم ردعمل اسی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
ان کے بقول اسرائیلی یہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس لامحدود وقت نہیں ہے، لیکن ابھی ان کے پاس اس سلسلے میں کافی وقت ہے۔
اس خبر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔
فورم