انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ہیومن رائٹس واچ یعنی ایچ آر ڈبلیو نے جمعرات کے روز فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کی مالک کمپنی میٹا پر الزام لگایا ہے کہ فیس بک اور انسٹاگرام پر ایسے مواد کو محدود کر دیا جاتا ہے جس میں فلسطینیوں کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہو۔ گروپ نے اسرائیل حماس جنگ کے آغاز کے بعد سے ’’ آن لائن منظم سنسرشپ‘‘ کی مذمت کی ہے۔
نیویارک میں قائم تنظیم نے جمعرات کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا کہ ’’میٹا کی پالیسیاں اور طرز عمل انسٹاگرام اور فیس بک پر فلسطینی انسانی حقوق کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کر رہی ہیں‘‘
ایچ آر ڈبلیو کی ٹیکنالوجی اور انسانی حقوق ڈویژن کی قائم مقام ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ڈیبرا براؤن نے کہا کہ میٹا کی طرف سے فلسطین کی حمایت میں مواد کی سنسر شپ ایک ایسے وقت پر توہین کا باعث ہے جب پہلے ہی ناقابل بیان مظالم اور جبر سے فلسطینیوں کے اظہار کو دبایا جا رہا ہے۔
میٹا کے اپنے غیر جانبدار نگران بورڈ نے پہلے ہی منگل کو اس اہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایسی پوسٹس ہٹانے کی وجہ سے تنقید کی تھی جس میں اس وقت جاری تنازعہ میں انسانی مصائب کو بیان کیا گیاتھا۔
اسرائیل پر حماس کے حملوں میں تقریباً 1,140 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں بیشتر عام شہری تھے۔دوسری جانب حماس حکومت کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں اب تک کم از کم 20,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
ایچ آر ڈبلیو نے ’’آن لائن منظم سنسرشپ ‘‘کی طرف توجہ دلائی اور اکتوبر اور نومبر کے دوران 60 سے زیادہ ملکوں میں انسٹاگرام اور فیس بک پر 1,050 سے زیادہ پوسٹس ہٹانے اور دیگر مواد کو دبانے کی اطلاع دی۔
زیر بحث مواد فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کی جانب سے پوسٹ کیا گیا تھا جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ بھی شامل تھا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’یہ فلسطین کے بارے میں مواد کو دبانے کی اب تک کی سب سے بڑی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔ فیس بک اور انسٹاگرام کی پیرنٹ کمپنی میٹا کے پاس فلسطین سے متعلق مواد پر کریک ڈاؤن کا دستاویزی ریکارڈ موجود ہے۔"
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق تنظیم کی جانب سے تجزیہ مکمل ہونے کے بعد بھی سیکڑوں افراد نے سنسرشپ کے بارے میں اطلاع دینا جاری رکھا ۔ ’’اس سے مراد یہ ہے کہ ہیومن رائٹس واچ کو موصول ہونے والے ایسے کیسز کی کل تعداد 1,050 سے تجاوز کر گئ ۔ ‘‘
ہیومن رائیٹس واچ نے کہا کہ ایسے 1,050 کیسز کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں 1,049 میں ’’فلسطین کی حمایت میں پرامن مواد شامل تھا جسے سینسر کیا گیا تھا یا غیر ضروری طور پر دبایا گیا تھا جبکہ ایک واقعہ ایسا تھا جس میں اسرائیل کی حمایت میں مواد کو ہٹانا شامل تھا۔‘‘
ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ انسٹاگرام اور فیس بک پر سنسر شپ میں پوسٹس، کہانیوں اور تبصروں کو ہٹانا، اکاؤنٹس کو معطل یا غیر فعال کرنا، صارفین کی پوسٹس کے ساتھ ربط یا مخصوص اکاؤنٹس کو فالو کرنے کی صلاحیت سمیت کچھ خصوصیات کو محدود کرنا، اور صارفین کی طرف سے پوسٹ کئے گئے مواد کے دکھائی دینے کی صلاحیت کو محدود کرنا شامل ہے۔
گروپ نے کہا کہ اس کی اپنی پوسٹس کو پابندیوں کا سامنا ہے۔ درجنوں صارفین نے اطلاع دی ہے کہ وہ ہیومن رائیٹس واچ کی پوسٹ کو دوبارہ پوسٹ ، لائیک یا اس پر تبصرہ نہیں کر پاتے جو "آن لائن سنسرشپ کے ثبوت ہیں جبکہ اسے ’Spam‘ کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔
ہیومن رائیٹس واچ نے کہا کہ ’’میٹا کو اپنے پلیٹ فارمز پر محفوظ اظہار خیال کی اجازت دینی چاہیے جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیویاں اور سیاسی تحریکیں شامل ہوں ۔ ‘‘
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم