رسائی کے لنکس

 ڈاکٹر یونس کو مجرم قرار  دینے کے عدالتی فیصلے پر سخت رد عمل


 نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس ، فائل فوٹو
نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس ، فائل فوٹو

دنیا بھر میں اپنی مائکرو کریڈٹ آرگنائزیشن ، گرامین بنک کے بانی کی حیثیت سے شہرت کے حامل ، نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کو ڈھاکہ کی ایک عدالت نے لیبر قوانین کی خلاف ورزی کا مجرم قرار دے کر انہیں چھ ماہ قید کی سزا سنائی ہے ۔

ڈاکٹر یونس نے ڈھاکہ کی عدالت میں نامہ نگاروں کو بتایا ، “مجھے اس جرم میں سزا دی گئی ہے جس کا میں نے ارتکاب ہی نہیں کیا ہے ۔”

اس فیصلے پر ملک میں سخت رد عمل سامنے آیا ہے اور سول سوسائٹی کے ارکان اس بارے میں حیرت کا اظہار کر رہے ہیں جسے انہو ں نے سلیکٹیو جسٹس قرار دیا ہے۔۔

بین الاقوامی طور پر معروف فوٹو گرافر شاہد العالم نے کہا ، ان تمام قسم کے جرائم کے بارے میں کچھ نہیں کیا جا رہا جن کا ہر روز ارتکاب ہوتا ہے ، لیکن ڈاکٹر یونس کے مقدمے کو غیر ضروری عجلت کے ساتھ مکمل کیا گیا ہے۔

شاہد العالم نے وی او اے کی بنگلہ سروس کو بتایا کہ ، وہ کارکنوں کے حقوق کے بارے میں بات کر رہے ہیں لیکن یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہاں انصاف ہوا ہے ۔

شاہد العالم کے خدشات کو بنگلہ دیش کے امور پر ایک عرصے سے نظر رکھنے والے برطانوی صحافی ڈیوڈ برگمین نے بھی دہرایا ۔ انہوں نے کہا ، “بنگلہ دیش کے قانونی نظام کی تاریخ میں کبھی بھی کوئی لیبر قانون ، یا در حقیقت کوئی بھی دوسرا قانون نہیں رہا ۔”

اس سزا پر فوری طور سے عمل نہیں ہورہا کیوں کہ عدالت نے یونس اور موبائل کمپنی ،گرامین ٹیلی کام کے تین اور عہدے داروں کی ضمانت منظور کر لی ہے اور انہیں اپیل دائر کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا ہے ۔ ڈاکٹر یونس نے یہ کمپنی 1990 کی دہائی میں قائم کی تھی۔

ان پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان میں ٹیلی کام کمپنی کے کارکنوں کو منافع میں سے حصہ نہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کارکنوں کے لیے قانون کےتقاضے کے مطابق فلاحی فنڈ کی تشکیل دینے میں ناکامی اور 101 کارکنوں کی ملازمتوں کو مستقل نہ کرنا شامل ہیں ۔

یہ مقدمہ 2021 میں دائر کیا گیا تھا لیکن ان چارو ں کے خلاف الزامات گزشتہ سال جون میں فریم کیے گئے تھے ۔

بہت سی بین الاقوامی طور پر معروف شخصیات فیصلہ سننے کے لیے عدالت میں اکٹھی ہو گئی تھیں۔ ان میں سے ایک ایمنیسٹی انٹر نیشنل کی سابق سیکرٹری جنرل آئرینے خان تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ہراساں کرنے والا مقدمہ تھا۔

انہوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا، “ میں اس فیصلے پر پریشان ہوں ۔ اسے انہیں ( محمد یونس) کو ہراساں کرنے کے لیے جاری کیا گیا ہے ۔”

فیکٹریو ں کے معائنہ کار ،2021 میں مقدمہ دائر کرنے والے سرکاری ادار ے کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے کہا کہ ، قانون کی خلاف ورزیاں عدالت میں ثابت ہو گئی ہیں۔

پراسیکیوٹر خورشید عالم خان نے وی او اے بنگلہ کو بتایا کہ سزا اس لیے دی گئی ہے کیوں کہ لیبر قانون کی خلاف ورزی ثابت ہو چکی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے ڈاکٹر یونس اور تین اور مدعا علیہان کو فوری طور پر ضمانت دے دی ہے اور انہیں اپیل دائر کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا ہے ۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے حسینہ واجد کی حکومت پر اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔ وہ 7 جنوری کو ہونے والے انتخابات میں پانچ سالہ مدت کے لیے مسلسل چوتھی بار عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

حسینہ کی حکومت نے سال2011 میں گرامین بینک کی سر گرمیوں کے جائزے کا آغاز کیا تھااور مینجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے والے پروفیسر یونس کو برطرف کر دیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے سرکاری ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔

2013 میں ان پر اس الزام کے تحت مقدمہ چلایا گیاکہ انہوں نے حکومت کی اجازت کے بغیر رقوم وصول کیں جن میں نوبیل انعام کے ساتھ ملنے والی رقم اور ایک کتاب کی رائیلٹی شامل تھیں۔

بعد میں انہیں اپنی دوسری کمپنیوں سے متعلق الزامات کا سامنا رہا۔ ان میں گرامین ٹیلی کام بھی شامل ہےجو ملک میں موبائل فون کی سب سے بڑی کمپنی کا حصہ ہے۔ اس کا نام گر امین فون ہے۔ یہ نارویجین ٹیلی کام کمپنی ٹیلی نور کی ذیلی شاخ ہے۔

اس رپورٹ کامواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG