رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: پروفیسر یونس کے خلاف مقدمات پرنوبیل انعام یافتہ رہنماوں کا اظہار تشویش


بنگلہ دیش کے نوبیل انعام یافتہ معیشت دان پروفیسر محمد یونس
بنگلہ دیش کے نوبیل انعام یافتہ معیشت دان پروفیسر محمد یونس

پروفیسر یونس کی جانب سے سال 2007 میں ایک سیاسی جماعت بنانے کے اعلان کے ایک سال بعد وزیر اعظم حسینہ واجد کی انتظامیہ نے ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تھا، پروفیسر یونس نے سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں صرف دولت کے حصول میں دلچسپی ہے۔

سابق امریکی صدر براک اوباما، اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بان کی مون اور 100 سے زائد نوبل انعام یافتہ رہنماؤں نےایک کھلے خط میں کہا ہے کہ انہیں بنگلہ دیش میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو درپیش حالیہ خطرات پر گہری تشویش ہے۔موجودہ تناظر میں انسانی حقوق کو درپیش خطرات میں سے ایک کا تعلق نوبل امن انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس سے ہے۔

منگل کے روز تحریر کیے گئے خط میں لکھا گیا ہے کہ ہم پریشان ہیں کہ انہیں (پروفیسر یونس کو ) حال ہی میں ایک ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے جو یقینی طور پر 'مسلسل عدالتی ہراس' ہے ۔

اس خط میں کہا گیا ہے کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ ان کے خلاف انسداد بد عنوانی اور لیبر لاءکے تحت جو کیسز کئے گئے ہیں وہ ایک تفصیلی جائزے کے تناظر میں ختم ہو جائیں گے۔

وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اس بارے میں اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بین الاقوامی ماہرین اور وکلا ءکا بنگلہ دیش میں خیر مقدم کریں گی تاکہ وہ پروفیسر یونس کے خلاف کی جانے والی قانونی چارہ جوئی اورالزامات کی متعلقہ دستاویزات کا معائنہ کریں ۔

حسینہ کا کہنا ہے کہ اگر ماہرین اور وکلا ءکو بنگلہ دیش بھیجا جائے تو بہت سی ایسی باتوں کا انکشاف بھی ہو گا جن پر ابھی بات کی ہی نہیں گئی ہے۔

گرامین بنک کی اہلکار بینک کے بانی اور نوبل انعام یافتہ محمد یونس کے پورٹریٹ کے ساتھ
گرامین بنک کی اہلکار بینک کے بانی اور نوبل انعام یافتہ محمد یونس کے پورٹریٹ کے ساتھ

یہ 1983کا ذکر ہے جب پروفیسر یونس نے گرامین بینک کی بنیاد رکھی ۔ یہ بینک ان کاروباری افراد کو قرض فراہم کرتا تھا جو عام طور پر دوسرے بینکوں سے قرض حاصل نہیں کر سکتے تھے ۔ اس بینک کی جانب سے لوگوں کو غربت سے نکالنے میں اس کامیاب کوشش کی تقلید متعدد دوسرے ملکوں میں بھی کی گئی، جن میں پاکستان بھی شامل ہے ۔

وزیر اعظم حسینہ کی انتظامیہ نے 2008میں پروفیسر یونس کے خلاف تحقیقات کے ایک سلسلے کا آغاز کیا۔ وہ اس وقت بہت خفا ہو گئیں جب 2007 میں یونس نے ایک سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔

اس وقت ملک کا اقتدار فوج کی حمایت یافتہ حکومت کے پاس تھا اور حسینہ جیل میں تھیں ۔ پروفیسر یونس نے پارٹی کی تشکیل کے اپنے منصوبے پر عمل نہیں کیا۔

یونس نے ملک کے سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صرف دولت کے حصول میں دلچسپی ہے۔ حسینہ نے ان کے لیے “خون چوسنے والے” کا لفظ استعمال کیا اورالزام لگایا کہ گرامین بینک کے سر براہ کی حیثیت سے انہوں نے غریب دیہی افراد سے اپنے قرض واپس لینے کے لئے طاقت اور دوسرے ذرائع کا استعمال کیا۔

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ شیخ
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ شیخ

حسینہ کی حکومت نے 2011میں ان کے بینک کی سر گرمیوں کے جائزے کا آغاز کیااور مینجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سےکام کرنے والے پروفیسر یونس کو برطرف کر دیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے سرکاری ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔

2013 میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ الزام تھا کہ انہوں نے حکومت کی اجازت کے بغیر رقوم وصول کیں جن میں نوبل انعام کے ساتھ ملنے والی رقم اور ایک کتاب کی رائیلٹیز شامل تھیں۔

بعد ازاں انہیں اپنی دوسری کمپنیوں سے متعلق الزامات کا سامنا رہا۔ ان میں گرامین ٹیلی کام بھی شامل ہےجو ملک میں موبائل فون کی سب سے بڑی کمپنی کا حصہ ہے۔ اس کا نام گر امین فون ہے۔ یہ نارویجین ٹیلی کام کی بڑی کمپنی ٹیلی نور کی ایک ذیلی شاخ ہے۔

اس ماہ کےآغازمیں گرامین ٹیلی کام کے اٹھارہ سابق کارکنوں نے یونس کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ ان پر الزام تھاکہ انہوں نے ملازمت سے جڑی مراعات کو ختم کر دیا تھا۔ وکلائے دفاع نے کیس کو ہراسگی قرار دیا اور الزامات کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا۔

اس کے علاوہ پروفیسر یونس پر لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں 22 اگست کو مقدمہ چلایا گیا۔ فیکٹریز اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے محکمہ انسپیکشن نے 2021 میں یونس اور دیگر تین افراد کے خلاف مقدمہ قائم کیا جس میں گرامین ٹیلی کام کے معائنے کے دوران غلطیوں کا الزام لگایا گیا۔ اس میں عملے کے 101 ارکان کے لیے عہدوں کو ریگولرائز کرنے اور ورکرز ویلفیئر فنڈ قائم کرنے میں ناکامی بھی شامل ہے۔

یونس اور دیگر 13 افراد کو بھی انسداد بدعنوانی کمیشن کی طرف سے لائے گئے مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا جس میں ان پر گرامین ٹیلی کام کے فنڈز میں غبن کا الزام لگایا گیا تھا۔

عالمی شخصیات نے اپنے خط میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ بنگلہ دیش کے آئندہ انتخابات قابل اعتبار ہوں۔ توقع ہے کہ جنوری کے اوائل میں انتخابات منعقد ہوں گے۔حسینہ نے کہا کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے۔

خالدہ ضیا کی سربراہی میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی جائے گی اور دھمکی دی ہے کہ اگر حسینہ واجد مستعفی نہیں ہوتیں اور نگران حکومت کو اقتدار نہیں سونپا جاتا تو وہ ووٹنگ کا بائیکاٹ کریں گے۔ حسینہ شیخ نےاپوزیشن کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔

(اس خبر کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں ۔)

فورم

XS
SM
MD
LG