امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاست کولوراڈو کی عدالت کی طرف سے ان کو ری پبلکن پرائمری الیکشن سے نا اہل قرار دینے کے معاملے پر ملک کی عدالت عظمیٰ سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
کولوراڈو کی ہائی کورٹ نے 19 دسمبر کو ٹرمپ کو صدارتی پرائمری الیکشن کے لیے نا اہل قرار دینے کا فیصلہ دیا تھا۔ عدالت نے یہ فیصلہ چھ جنوری 2021 کو کانگریس کی عمارت پر چڑھائی اور سابق صدر پر بغاوت میں ملوث ہونے کے الزامات کی روشنی میں سنایا تھا۔
آئین کی جس شق کے تحت ٹرمپ کو کولوراڈو کی عدالت نے نا اہل قرار دیا تھا اس کے مطابق بغاوت یا بغاوت میں ملوث ہونے پر کسی بھی اہلکار کو عوامی عہدہ رکھنے سے روکا جا سکتا ہے۔
تاہم کولوراڈو کی ہائی کورٹ نے پہلے ہی اپنا فیصلہ چار جنوری تک یہ کہتے ہوئے روک دیا تھا کہ اگر ٹرمپ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے تو وہ پرائمری الیکشن میں شامل ہوں گے۔
مبصرین ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی کے 2024 کی صدارتی نامزدگی کے لیے دیگر امیدواروں کے مقابلے میں آگے سمجھتے ہیں۔ جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے موجودہ صدر جو بائیڈن اس سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں صدارتی امیدوار ہوں گے۔
ٹرمپ کی اس فیصلے پر مداخلت کی درخواست ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارے کے سامنے سیاسی طور پر ایک اہم مقدمہ لائی ہے۔
اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں نو میں سے چھ جج قدامت پسند ہیں جن میں ٹرمپ کے مقرر کردہ تین جج بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کے ججوں کی کارروائی امریکہ میں 2024 کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کو دیگر ریاستوں کے الیکشن کے لیے نا اہل قرار دینے کی وسیع تر کوشش کا تعین کرے گی۔
ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی دارالحکمو ت واشنگٹن ڈی سی میں چھ جنوری 2021 کو اس وقت کانگریس پر چڑھائی کی تھی جب وہاں موجودہ ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کی 2020 کے انتخابات میں کامیابی کو توثیق کی جا رہی تھی۔
اس حملے کو انتخابی نتائج کو الٹنے کی سازش قرار دیا گیا تھا۔
کیپیٹل ہل حملے سے قبل ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف انتخابی فیصلہ دھوکہ دہی کا نتیجہ تھا۔
ٹرمپ نے ریاست مین کی ایک عدالت کے اس فیصلے کے خلاف بھی اپیل کی ہے جس کے مطابق ریاست کے اعلیٰ انتخابی اہلکار نے انہیں ریاست میں پرائمری الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔
امریکی آئین کی متعلقہ شق ایسے کسی بھی امریکی اہلکار کی عوامی عہدے پر فائض ہونے کی ممانعت کرتی ہے جس نے آئین کی حمایت کرنے کا حلف اٹھایا اور پھر اس کے خلاف بغاوت یا بغاوت میں ملوث ہوا یا اس کے دشمنوں کو مدد کی۔
آئین کی یہ ترمیم 65-1861 کے دوران خانہ جنگی کے تناظر میں کی گئی تھی جب جنوبی ریاستوں نے علیحدہ ہونے کے لیے امریکہ کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ ٓ
سابق صدر کے وکلا کا مؤقف ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی چھ جنوری کو حملے سے قبل کی گئی تقریر کو آئین کی آزادیٴ اظہارِ رائے کے قانون کا تحفظ حاصل تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ آئین کی عوامی عہدے سے ممانعت کرنے والی شق کا اطلاق امریکہ کے صدور پر نہیں ہوتا۔ لہذا ٹرمپ کو انتخابی عمل میں نا اہل قرار دینے کے لیے کانگریس کو ووٹ کے ذریعہ ایسے اقدام کی منظوری دینی ہو گی۔
اس رپورٹ میں شامل مواد خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لیا گیا ہے۔