پاکستان سے مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں کابل جانے والے وفد نے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی عبوری حکومت کے وزیرِ اعظم ملا حسن اخوند اور وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے ملاقاتیں کی ہیں۔
ان ملاقاتوں کے بعد امیر خان متقی نے امید ظاہر کی کہ پاکستانی وفد کا یہ دورہ اسلام آباد اور کابل کے تعلقات کے حوالے سے سود مند ثابت ہو گا۔
پاکستان کے وفد نے اتوار کو کابل میں طالبان حکومت کے نائب وزیرِ اعظم مولوی عبدالکبیر سمیت اعلیٰ افغان حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔
اگست 2021 میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کا یہ افغانستان کا پہلا دورہ ہے۔
پاکستان کے وفد میں مولانا عبد الواسع، مولانا صلاح الدین، مولانا جمال الدین، مولانا کمال الدین، مولانا ادریس، مولانا امداد اللہ، مفتی ابرار اور مولانا سلیم الدین شامزئی شامل ہیں۔
اس وفد کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں کے باعث تعلقات کشیدہ ہیں۔
دوسری جانب طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے معاملے کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دے رہی ہے۔
مبصرین کے مطابق الیکشن سے قبل پاکستانی وفد کا یہ دورہ ملک میں امن و امان کے حوالے سے ایک اچھی کوشش ہے۔ لیکن اس دورے سے زیادہ امیدیں بھی نہیں لگانی چاہیئں۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے ملا محمد شیرین اخوند نے بھی وفد کے ہمراہ اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ ان کے بقول اگرچہ اس دورے کی زیادہ تفصیلات ذرائع ابلاغ میں سامنے نہیں آئیں۔ تاہم صورتِ حال مثبت سمت میں جانے کی امید کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملا محمد شرین اخوند کے دورۂ اسلام آباد کے فوری بعد مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے کابل کا دورہ کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سمیع یوسف زئی کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان پاکستانی علماء کرام کا احترام کرتے ہیں۔ طالبان رہنماؤں کے کئی رہنماؤں نے ان کے مدارس میں تعلیم حاصل کی ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اس وفد کی سیاسی درخواستوں سے بھی متفق ہوں کیوں کہ طالبان کی سوچ اور مزاج پاکستان کے لوگوں سے مختلف ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے مذہبی لوگوں کا مزاج نرم اور سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے والا ہے جب کہ دوسری جانب افغانستان گزشتہ پانچ دہائیوں سے حالتِ جنگ میں ہے۔ اسی لیے وہاں کے لوگوں کا مزاج سخت ہے اور وہ طاقت کے زور پر اقتدار اور خلافت قائم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ یہ نہیں سمجھتے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں جانے والا یہ وفد کچھ حاصل کر کے لے آئے گا۔
اطلاعات کے مطابق پاکستانی وفد کابل میں اپنی مصروفیات ختم کرنے کے بعد پیر کو طالبان سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ سے ملاقات کرنے کے لیے قندھار جائے گا جہاں ایک دوسرے سے براہِ راست معاملات کو حل کرنے پر زور دیا جائے گا۔
افغان امور کے تجزیہ کار سمیع یوسف زئی کے مطابق پاکستانی وفد کا ملا ہبت اللہ سے براہِ راست ملاقات اس دورے کا سب سے نمایاں پہلو ہے کیوں کہ اس سے قبل سپریم لیڈر سے بہت کم غیر ملکی افراد نے ملاقات کی ہے۔
پاکستانی وفد کی یہ کوشش ہو گی کہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے اپنے خدشات ان کے سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں جنم لینے والے سیکیورٹی سے متعلق معاملات کو اجاگر کر سکیں۔
یاد رہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ 60 سے زائد حملے کیے گئے جس میں زیادہ تر میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان میں حکام کہتے رہے ہیں کہ انہوں نے ٹی ٹی پی کے افغانستان میں محفوظ ٹھکانوں کا معاملہ متعدد مرتبہ طالبان حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے۔ تاہم اس حوالے سے کابل سے کوئی خاطر خوا کارروائی تا حال سامنے نہیں آئی۔ اگرچہ طالبان حکومت نے پاکستانی وفد کا والہانہ استقبال کیا ہے۔ تاہم افغان عوام اس دورے کے حوالے سے مثبت سوچ نہیں رکھتے۔
افغان نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ سے وابستہ کابل کے صحافی سیال یوسفی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر افغان عوام نے پاکستانی وفد کے دورے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے افغانستان میں ہمیشہ دوہرا تاثر پایا جاتا ہے۔ حکومتی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت اور تنازعات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا جاتا ہے جب کہ افغان عوام ملک میں خانہ جنگی کا ذمے دار ایک طویل عرصے سے پاکستان کو ہی سمجھتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کے دورۂ کابل پر بات کرتے ہوئے سیال یوسفی نے مزید بتایا کہ ان کے وفد کو شان دار پروٹوکول دیا گیا اور پہلے ہی دن اعلیٰ افغان حکام کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں اور اب ممکنہ طور پر ان کی ملاقات سپریم لیڈر شیخ ہبت اللہ کے ساتھ بھی ہونے جا رہی ہے۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی موجودگی کے حوالے سے سیال یوسفی کا کہنا تھا کہ عوامی سطح پر اسے پاکستانی پروپیگنڈا قرار دیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق افغان عوام یہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ 20 برس میں جو کچھ بھی پاکستان افغانستان میں مبینہ طور پر کر رہا تھا وہی کچھ اب اس کے ملک میں ہو رہا ہے۔
سمیع یوسف زئی کہتے ہیں کہ پاکستان کی درخواست پر ٹی ٹی پی کے کردار کو افغانستان تک محدود کرنا یا انہیں مکمل طور پر بے دخل کرنا کسی بھی طور پر معجزے سے کم نہیں ہو گا کیوں کہ ایک طرف افغان طالبان کی اپنی مجبوریاں ہیں اور دوسری طرف ٹی ٹی پی کا معاملہ طالبان کے لیے انا کا مسئلہ بن گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کی خواہش پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی افغانستان کے اندرونی مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ عوامی دباؤ بڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔ طالبان کبھی عوامی سطح پر اپنے اوپر 'پرو پاکستان' ہونے کا ٹھپہ نہیں لگوانا چاہیں گے۔
فورم